تیار کردہ صفحات از نادم شگری
کلام
- آج شبیر پہ کیا عالم تنہائی ہے
- اللہ ہو اللہ ہو
- الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
- انسان کہاں وہ لوگ ہمیں شیطان دکھائی دیتے ہیں
- اے رب جہاں
- پہلے مہ و خورشید کو تسخیر کروں میں
- پھر آیا ہے محرم کا مہینہ
- تجھ کو دیارِ غیر کی آب و ہوا پسند
- جب امام آئیں گے
- جب خدا کو پکارا علی ؑ آگئے
- حسین ؑ کی دکھ بھری کہانی
- حسین ؑ ابن علی ؑ پر سلام کہنا ہے
- حسینیت بھی عجب سلطنت ہے بے خبرو
- خطیب نوک سناں
- دریا ہے ہمارا
- دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے
- دل جب سے ہے خاک رہ قنبر کے برابر
- دُکھتے ہوئے دلوں کی صدا ماتمِ حسین ؑ
- دیکھنا کتنا ہے رتبہ محترم عباس ؑ کا
- زیست جس کی باندی ہے وہ حسین میرا ہے
- سرمایۂ دیں، دولتِ احساس ہے اصغر ؑ
- شاعری بھی مِری ان سے منسوب ہے
- شام غریباں
- شبیر یہ سب دنیا تیرے نام سے زندہ ہے
- ظہور کا وقت آگیا ہے
- عزت ابو طالب ؑسے، شہرت ابو طالب ؑ سے
- علی جمال دوعالم
- علیؑ کی بیٹی ؑ
- غمِ شبیر اپنی زندگی ہے
- کربلا سے جو مِری سمت ہوائیں آئیں
- کربلا میں خلد کا جب در کھلا
- کوئی جانے بھلا کیا مقدرَت معصومہ قم کی
- کون کہتا ہے مجھے شان سکندر دے دے
- کیا خاک وہ ڈریں گے لحد کے حساب سے
- گر علی نہیں آتے، زندگی نہیں آتی
- گو کہ ربّ کوئی بھی اللہ کا جیسا نہ ہوا
- گوہر کنج حرم
- ماتم کرو کہ عظمتِ انساں اداس ہے
- مری آنکھوں میں جو اشکوں کی جھڑی ہے لوگو
- مظلوم کے ہاتھوں پہ جو دم توڑ رہا ہے
- مقام پیش خدا معتبر بتول کا ہے
- نگہبان رسالت
- ہم علی کو خدا نہیں جانا
- یاد زینب کو جو عباس کے بازو آئے
شخصیات
لٹ کے آباد ہے جو اب تک تو وہ گھر کس کا ہے سب اونچا ہے جو کٹ کر بھی سر کس کا ہے ظلم شبیؑر کی ھبیت سے نہ لرزے کیونکر کس نبی ہے نواسہ یہ پسر کس کا ہے جس کو دستک سے بھی پہلے ملے خیرات نجات کاش سوچے کبھی دنیا کہ وہ در کس کا ہے۔ کس نے مقتل کی زمیں چھو کے معلیٰ کر دی پوچھنا کربٌلا سے یہ ہنر کس کا ہے کس کی ہجرت کے تسلسل سے شریعت ہے رواں کافلہ آج تلک شہر بدر کس کا ہے تخت والوں نے معرخ بھی خریدے ہوں گے لیکن ذکر آج بھی دنیا میں شام و سحر کس کا ہے لاش اکبرؑ پے قضا سوچ رہی ہے اب تک جس میں ٹوٹی ہے یہ برچھی وہ جگر کس کا ہے کون ہر شام غم شے میں لہو روتا ہے آسمانوں سے ادھر دیدہ تر کس کا ہے ہاتھ اٹھاتا ہوں ایوان صدر کانپتے ہیں سوچتا ہوں میرے ماتم میں اثر کس کا ہے جس کی حد ملتی ہے جنت کی حدوں سے محسن جزو حسینؑ ابن علیؑ اور سفر کس کا ہے۔ ———- کہتے ہیں بڑے فخر سے ہم غم نہیں کرتے ماتم کی صدا سنتے ہیں ماتم نہیں کرتے اپنا کوئی مرتا ہے تو روتے ہو تڑپ کے پر سبطِ پیمبر کا کھبی غم نہیں کرتے وہ لوگ بھلا کیا سمجھیں گے رمز شہادت جو عید تو کرتے ہیں ماتم نہیں کرتے کیوں آپ کا دل جلتا ہے کیوں جلتا ہے سینہ ہم آپ کے سینے پے تو ماتم نہیں کرتے گریا کیا یعقوب نے انہیں بھی تو ٹوکو یوسف ابھی زندہ ہے یوں غم نہیں کرتے حق بات ہے بغض علی کا ہی ہے چکر تم اس لیے شبیر کا ماتم نہیں کرتے ہمت ہے محشر میں پیمبر سے یہ کہنا ہم زندہ جاوید کا ماتم نہیں کرتے محسن یہ مقبول روایت ہے جہاں میں قاتل کھبی مقتول کا ماتم نہیں کرتے