الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے

شیعہ اشعار سے
الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبنعت
وزنمفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
موضوعپیغمبر اکرم
زباناردو
تعداد بند39


الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے: حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کی لکھی ہوئی نعت ہے۔

تعارف

یہ نعتیہ کلام محسن نقوی کے شعری مجموعے "فراتِ فکر" میں "قریۂ ادراک" کے عنوان سے رقم ہے۔ اس کلام کو نعت خوانوں کے ہاں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، کچھ نعت خوانوں نے تو دف اور موسیقی کے ساتھ اس کی ریکارڈنگ کرائی ہے۔

مکمل کلام

الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہےیہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے
سانسوں میں مہکتی ہیں مُناجات کی کلیاںکلیوں کے کٹوروں پہ تیرا نام لکھا ہے!!
گلیوں میں اُترتی ہیں ملائک کی قطاریںاحساس کی بستی میں عجب جشن بپا ہے !!
ہے قریۂ ادراک مُنوّر ترے دم سےہر ساعتِ خوش بخت جہاں نغمہ سرا ہے
سُن لے گا مرا ماجرا تو بھی کہ اَزل سےپیغام بر دیدہ و دل موجِ صبا ہے
ہیں نذر تری بارگہِ ناز میں افکار!تو مرکزِ دلدارئ اربابِ وفا ہے
اب کون حدِ حُسن طلب سوچ سکے گا؟کونین کی وسعت تو تہِ دَستِ دُعا ہے
ہے تیری کسک میں بھی دَھمک حشر کے دن کیوہ یوں کہ مرا قریۂ جاں گونج اٹھا ہے
اعصاب پہ حاوی ہے سدا ہیبتِ اقراءجبریلِ مؤدّت کو یہ دل غارِ حرا ہے
آیات کے جُھرمٹ میں تیرے نام کی مسندلفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے
اِک بار ترا نقشِ قدم چوم لیا تھا! سو بار فلک شکر کے سجدے میں جھُکا ہے
خورشید تیری رہ میں بھٹکتا ہوا جگنومہتاب تیرا ریزۂ نقشِ کف پا ہے
تلمیحِ شبِ قدر ترا عکسِ تبسّم"نوروز" ترا حسنِ گریبانِ قبا ہے
ہر صبح ترے فرقِ فلک ناز کا پرتوہر شام ترے دوشِ معلیٰ کی رِدا ہے
تارے، ترے رہوار کے قدموں کےشرارےگردوں ترا دریوزہ گرِ آبلہ پا ہے !!
یا تیرے خدوخال سے خیرہ مہ و انجمیا دُھوپ نے سایہ ترا خود اوڑھ لیا ہے
یا رات نے پہنی ہے ملاحت تری تن پریا دِن ترے اندازِ صباحت پر گیا ہے !!
یٰسین، ترے اسمِ گرامی کا ضمیمہہے نون تری مدح، قلم تیری ثناء ہے
واللیل تیرے سایۂ گیسو کا تراشہ"والعصر" تری نیم نگاہی کی ادا ہے
فاقوں سے خمیدہ ہے سدا قامتِ درباںٹھوکر میں مگر سلسلۂ اَرض و سَما ہے
غیروں پہ بھی الطاف ترے سب سے الگ تھےاپنوں پہ نوازش کا بھی انداز جدا ہے
دل میں ہو تری یاد تو طوفاں بھی کناراحاصل ہو ترا لطف تو صَرصَر بھی صبا ہے
لمحوں میں سمٹ کر بھی ترا درد ہے تازہصدیوں میں بکھر کر بھی ترا عشق نیا ہے
دیکھوں تو ترے در کی غلامی میں ہے شاہیسوچوں تو ترا شوق مجھے "ظلِّ ہُما" ہے!
رگ رگ نے سمیٹی ہے تیرے نام کی فریادجب جب بھی پریشاں مجھے دنیا نے کیا ہے
خالق نے قسم کھائی ہے اُس شہرِ اماں کیجس شہر کی گلیوں نے تجھے ورد کیا ہے
یہ قوِ قزح ہے کہ سرِ صفحۂ آفاق!برسات کی رُت میں ترا محرابِ دُعا ہے
ہر سمت ترے لطف و عنایات کی بارشہر سُو ترا دامانِ کرم پھیل گیا ہے
اب اور بیاں کیا ہو کسی سے تری مدحت؟یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوبِ خدا ہے!
سورج کو اُبھرنے نہیں دیتا تیرا حبشیبے زر کو ابوزؔر تیری بخشش نے کیا ہے
ہے موجِ صبا یا تری سانسوں کی بھکارن؟ہے موسمِ گل یا تری خیراتِ قبا ہے
خورشید قیامت بھی سر افراز بہت ہےلیکن ترے قامت کی کشش اس سے سوا ہے
زَم زَم ترے آئینِ سخاوت کی گواہیکوثر ترا سرنامۂ دستورِ عطا ہے
جلتا ہوا مہتاب ترا رَہروِ بے تابڈھلتا ہوا سورج ترے خیمے کا دِیا ہے
ثقلین کی قسمت تیری دہلیز کا صدقہعالم کا مقدر تیرے ہاتھوں میں لکھا ہے
اُترے گا کہاں تک کوئی آیات کی تہ میںقرآں تری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے!!
محشر میں پرستار ترے یوں تو بہت تھےصد شکر مرا نام تجھے یاد رہا ہے
اے گنبدِ خضریٰ کے مکیں میری مدد کر!یا پھر یہ بتا کون مرا تیرے سوا ہے؟
بخشش تیری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہےمحسن تیرے دربار میں چُپ چاپ کھڑا ہے[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، فرات فکر: ص17

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.