مندرجات کا رخ کریں

"نسیم امروہوی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''نسیم امروہوی'''(1908ء- 1987ء) پاکستان کے معروف مرثیہ گو شاعر اور ادیب تھے۔ انہوں نے شعری ورثے کے ساتھ ساتھ نسیم اللغات اور رئیس اللغات جیسی گرانقدر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔
'''نسیم امروہوی:'''(1908ء- 1987ء) پاکستان کے معروف مرثیہ گو شاعر اور ادیب تھے۔ انہوں نے شعری ورثے کے ساتھ ساتھ نسیم اللغات اور رئیس اللغات جیسی گرانقدر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔
==مختصر سوانح حیات==
==مختصر سوانح حیات==
نام سید قائم رضا، تخلص نسیم۔24؍اگست 1908ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ الہ آباد بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی سے منشی ، کامل ، مولوی، عالم، فاضل ادب (مع انگریزی) فاضل فقہ اور نوراللہ فاضل کی اسناد حاصل کیں۔ شروع میں انھوں نے قائم تخلص رکھا۔ 1923ء میں نسیم تخلص اختیار کیا۔<ref>شمس الحق، پیمانۂ غزل: ص410</ref> نسیم امروہوی ہمارے عہد کی کلاسیکی روایت کے آخری شاعر ہیں۔ انہوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ غزل، قصیدہ، مثنوی، قطعہ، رباعی، نظم حتی کہ گیت تک انہوں نے سب کچھ لکھا ہے مگر ان کا اصل میدانِ شاعری "مرثیہ" ہے جس میں انہوں نے روایت کی بھرپور پابندی کی ہے۔ البتہ انہوں نے اپنے علمی تبحر کے بل بوتے پر قرآنی آیات اور مصدقہ احادیث نبوی کو شامل کلام کر کے مرثیے کے مضامین میں نئی راہیں تلاش کی ہیں۔ مرثیے میں سیاست علوی، وجود و غیبت امام، اصلاح رسوم فی زمانہ، احیائے روح اسلامی، فلسفہ مسرت و غم، جائزۂ نفس، علم، شاعر اور شاعری، قلم اور عورت جیسے عنوانات کو موضوعات کی تلاش میں نسیم کا فنکارانہ اضافہ کہا جاسکتا ہے۔<ref>کاظمی، اردو مرثیے کا سفر: ص495، 497</ref> نسیم امروہوی نے سو سے زیادہ مرثیے کہے ہیں اس کے علاوہ  متعدد علمی وادبی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ آپ کی تصانیف کے نام یہ ہیں:"روح انقلاب"،"ساز حریت"، "برق وباراں"(طویل مسدس)، "نسیم اردو"، "نسیم اللغات"، "رئیس اللغات"، "مراثی نسیم"(حصہ اول ،دوم، سوم) ، "تاریخ خیر پور"، "فرہنگ اقبال"(اردو)، "فرہنگ اقبال"(فارسی)۔ اردو کے یہ معروف مرثیہ گو شاعر اور ادیب ۲۸؍فروری ۱۹۸۷ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔<ref>شمس الحق، پیمانۂ غزل: ص410</ref>
نام سید قائم رضا، تخلص نسیم۔24؍اگست 1908ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے۔ الہ آباد بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی سے منشی ، کامل ، مولوی، عالم، فاضل ادب (مع انگریزی) فاضل فقہ اور نوراللہ فاضل کی اسناد حاصل کیں۔ شروع میں انھوں نے قائم تخلص رکھا۔ 1923ء میں نسیم تخلص اختیار کیا۔<ref>شمس الحق، پیمانۂ غزل: ص410</ref> نسیم امروہوی ہمارے عہد کی کلاسیکی روایت کے آخری شاعر ہیں۔ انہوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ غزل، قصیدہ، مثنوی، قطعہ، رباعی، نظم حتی کہ گیت تک انہوں نے سب کچھ لکھا ہے مگر ان کا اصل میدانِ شاعری "مرثیہ" ہے جس میں انہوں نے روایت کی بھرپور پابندی کی ہے۔ البتہ انہوں نے اپنے علمی تبحر کے بل بوتے پر قرآنی آیات اور مصدقہ احادیث نبوی کو شامل کلام کر کے مرثیے کے مضامین میں نئی راہیں تلاش کی ہیں۔ مرثیے میں سیاست علوی، وجود و غیبت امام، اصلاح رسوم فی زمانہ، احیائے روح اسلامی، فلسفہ مسرت و غم، جائزۂ نفس، علم، شاعر اور شاعری، قلم اور عورت جیسے عنوانات کو موضوعات کی تلاش میں نسیم کا فنکارانہ اضافہ کہا جاسکتا ہے۔<ref>کاظمی، اردو مرثیے کا سفر: ص495، 497</ref> نسیم امروہوی نے سو سے زیادہ مرثیے کہے ہیں اس کے علاوہ  متعدد علمی وادبی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔ آپ کی تصانیف کے نام یہ ہیں:"روح انقلاب"،"ساز حریت"، "برق وباراں"(طویل مسدس)، "نسیم اردو"، "نسیم اللغات"، "رئیس اللغات"، "مراثی نسیم"(حصہ اول ،دوم، سوم) ، "تاریخ خیر پور"، "فرہنگ اقبال"(اردو)، "فرہنگ اقبال"(فارسی)۔ اردو کے یہ معروف مرثیہ گو شاعر اور ادیب ۲۸؍فروری ۱۹۸۷ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔<ref>شمس الحق، پیمانۂ غزل: ص410</ref>
369

ترامیم