میں ساحر ہوں قلم معجز بیاں ہے

شیعہ اشعار سے
میں ساحر ہوں قلم معجز بیاں ہے
معلومات
شاعر کا نامساحر لکھنوی
قالبغزل
وزنمفاعلین مفاعیلن فعولن
موضوعامام علیؑ
مناسبت13 رجب
زباناردو



میں ساحر ہوں قلم معجز بیاں ہے:یہ مولائے کائنات حضرت علیؑ کی شان میں  جناب ساحر لکھنوی کا  لکھا ہوا قصیدہ ہے۔

تعارف

قلم کے عنوان سے لکھے گئے اس قصیدے کے آغاز میں پہلے قلم کی اہمیت بیان کی گئی ہے اور اس کے بعد مولائے کائناتؑ کی خانہؑ کعبہ مییں ولادت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور آخر میں آپؑ کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔

مکمل کلام

میں ساحر ہوں قلم معجز بیاں ہے ​
کہ یہ معجز بیاں کا مدح خواں ہے
عصا ہے یہ کلیمِ طورِ فن کا ​
علمدارِ تخیّل کا نشاں ہے
کرن ہے آفتابِ منقبت کی ​
کبھی تو بزم اس س ضو فشاں ہے
الف ہے ابجدِ شعر و سخن کا ​
یہ راہِ فن میں میرِ کارواں ہے
علَم ہے تاجدارانِ ہنر کا ​
شجاعان ِ عرب کا یہ نشاں ہے
یہی ہے لو چراغِ معرفت کی ​
یہی شمعِ عقیدت کی زبان ہے
یہی کِھیتا ہے ناؤ فکر و فن کی ​
اِسی کے دم سے یہ کشتی رواں ہے
اُترتا ہے ہے اسی پر طائرِ فکر ​
یہ شاخِ گل یہ شاخِ آشیاں ہے
یہی ہے شمعِ بزمِ ماضی و ​حال
یہی تاریخ عالم کی زباں ہے
جہاد حق میں یہ نیزہ میرا ​
چلے سوئے عدو تو یہ سناں ہے
​تکلم میں زبانِ علم و حکمت
خموشی میں جوابِ جاہلاں ہے
یہ جو اک نغمگی ہے اس لب پر
یہی تع کعبہؑ فن کی ازاں ہے
​یہی کاتب ہے قرآنِ مبیں کاب ​
شرف یہ اس کا دنیا پر عیاں ہے
یہ قامت میں ہے سروِ باغِ مدحت​ب ​
خرام اس کا خرام مہوشاں ہے
​یہ لکھتا ہے مرا حالِ محبتب ​
یہ میری لوحِ دل کا رازداں ہے
چلے جو دشمنانِ اہلِ حق پر
تو پھر یہ ایک تیغِ بے اماں ہے
کُھلے جو دوستوں کی بزم میں، تو
زباں اس کی محبت کی زباں ہے
یہ وہ باذوق میکش ہے کہ کس کو
مئے مدحت شرابِ ارغواں ہے
بہکتا ہے اگرچہ پی نییں ہے
چلکتا ہے اگرچہ بے زباں ہے
حروف اس لیے جام و سبو ہیں
دوات اس کے لیے پیرِ مغاں ہے
شراب اس کے لیے ہے روشنائی
جبھی تو روشنی کا ترجماں ہے
یسی سے لکھ رہا ہوں مدحِ حیدرؑ
یہی تو میرے جذبوں کی زباں ہے
بہاؤ پر بہے جس طرح کشتی
زمینِ مدح میں ایسے رواں ہے
ہے لب پر مدح مولودِ حرم کی
قلم کی بانگ کعبے کی ازاں ہے
کھچا جاتا ہے دل سوئے حرم اب
تخیل جانب کعبہ رواں ہے
حرم اور اس کی رونق اللہ اللہ
یہاں تو بزمِ کوثر کا سماں ہے
فلک سے ہو رہی ہے بارش مئے
زمیں پر بھی ہجومِ میکشاں ہے
ہر اک کے لب ہے ساقی کی مدحت
یر اک میخوار اس کا مدح خواں ہے
نہ کیوں ساقی سے میں بھی لو لگاؤں
میں پیاسا ہوں وہ بحرِ بیکراں ہے
ہوا پھر مطلعِ تخئیل روشن
زمینِ فکر بھی اب آسماں ہے
بڑا پر کیف کعبے کا سماں ہے
کسی کی آمد آمد اب یہاں ہے
حرم کی سمت وہ بیٹی اسد کی
بحالِ اضطرارِ دل رواں ہے
اُدھر دیوار ہے بابِ مقفل
ادھر دیوار میں اک در عیاں ہے
مبارک ہو کہ اب کعبے کے اندر
چراغِ نورِ حیدرؑ ضو فشاں ہے
سمندر گر رہا ہے آب جو میں
دہن ان کا محمدؐ کی زباں ہے
خدا کے گھر میں وہ بچہ میں مہماں
کہ جس کا ہر نفس بانگِ درا ہے
چراغِ عرش ہے کعبے میں روشن
کہاں کی جلوہ سامانی کہاں ہے
محافظ ہے یہی اب اس چمن کا
مکاں اس کا ہے جو خود لا مکاں ہے
نہ کیوں ہو یہ اسد االلہ ب
جو بیٹی ہے اسد کی،اس کی ماں ہے
یہ طالب ہے رضائے کبریا کا
ابو طالب کا یہ آرامِ جاں ہے
یہی ہے ساقئ بزمِ مودت
اسی کی مدح کیفِ جاوداں ہے
نہ کیوں سجدے کرے بابِ حرم پر
یہ میرِ میکدے کاا آسماں ہے
یہ عظمت ماورا ہے ہر گماں سے
علی کی مدح اور میری زباں ہے
میں کیا لکھوں ثنائے شاہِ مرداں
قلم میں اس قدر طاقت کیاں ہے
یہ ان کی مدح نے دی ہے بلندی
زمینِ شعر کیا ہے آسماں ہے
میں ہوں مداح استادِ ملائک
مرے منہ میں ملائک کی زباں ہے
تقدس مدح کا،اللہ اکبر
ہر اک مصرع پر آیت کا گماں ہے
علی کی مدح میں لکھتا ہوں جو کچھ
نہ لفاظی نہ جھوٹی داستاں ہے
میں کب اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں
ارے یہ تو فرشتوں کا بیاں ہے
کہیں تائید کرتی ہیں حدیثیں
کہیں قرآن میرا ہم زباں ہے
جو خالی ہو ثنائے مرتضیٰ سے
وہ لمحہ کا رائیگاں ہے
اسے دیکھا نہیں لیکن وہ صورت
بصارت پر بصیرت سے عیاں ہے
علیؑ کو پیکرِ انساں میں بھیجا
خدا انساں پہ کتنا مہرباں ہے
زمیں پر یہ نہیں سایہ علیؑ کا
سرِ انسانیت کا سائباں ہے
محمدؐ اور علیؑ اس کے مکیں ہیں
یہی تو عظمتِ کون مکاں ہے
بقولِ مصطفیٰ اک ضربِ حیدرؑ
دو عالم کی عبادت سے گراں ہے
شبِ ہجرت خریداری تو دیکھو
عجب بازارِ ایماں کا سماں ہے
رضائے حق اُدھر بکنے پہ مائل
ادھر قیمت میں حاضر نقدِجاں ہے
یہ دل جائے سر عشقِ علیؑ میں
یہاں کس کو غمِ سود و زیاں ہے
مزہ ہے جو غلامئ علیؑ میں
نصیری کے مقدر میں کہاں ہے
قصیدہ سن کے فرمایا علیؑ نے
یہ میرا ساحرِ معجز بیاں ہے [1]

حوالہ جات

  1. ساحر لکھنوی،صحیفہؑ مدحت،ص149 تا 158

مآخذ

ساحر لکھنوی،صحیفہؑ مدحت،کراچی(پاکستان)،آثار و افکارِ اکادمی،