الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے
الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے: حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کی لکھی ہوئی نعت ہے۔
تعارف
یہ نعتیہ کلام محسن نقوی کے شعری مجموعے "فراتِ فکر" میں "قریۂ ادراک" کے عنوان سے رقم ہے۔ اس کلام کو نعت خوانوں کے ہاں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ہے، بعض نے دف اور موسیقی کے ساتھ اس کی ریکارڈنگ کر کے سوشل میڈیا پر دیا ہے۔
مکمل کلام
الہام کی رم جھم کہیں بخشش کی گھٹا ہے | یہ دل کا نگرہے کہ مدینے کی فضا ہے | |
سانسوں میں مہکتی ہیں مُناجات کی کلیاں | کلیوں کے کٹوروں پہ تیرا نام لکھا ہے!! | |
گلیوں میں اُترتی ہیں ملائک کی قطاریں | احساس کی بستی میں عجب جشن بپا ہے !! | |
ہے قریۂ ادراک مُنوّر ترے دم سے | ہر ساعتِ خوش بخت جہاں نغمہ سرا ہے | |
سُن لے گا مرا ماجرا تو بھی کہ اَزل سے | پیغام بر دیدہ و دل موجِ صبا ہے | |
ہیں نذر تری بارگہِ ناز میں افکار! | تو مرکزِ دلدارئ اربابِ وفا ہے | |
اب کون حدِ حُسن طلب سوچ سکے گا؟ | کونین کی وسعت تو تہِ دَستِ دُعا ہے | |
ہے تیری کسک میں بھی دَھمک حشر کے دن کی | وہ یوں کہ مرا قریۂ جاں گونج اٹھا ہے | |
اعصاب پہ حاوی ہے سدا ہیبتِ اقراء | جبریلِ مؤدّت کو یہ دل غارِ حرا ہے | |
آیات کے جُھرمٹ میں تیرے نام کی مسند | لفظوں کی انگوٹھی میں نگینہ سا جڑا ہے | |
اِک بار ترا نقشِ قدم چوم لیا تھا! | سو بار فلک شکر کے سجدے میں جھُکا ہے | |
خورشید تیری رہ میں بھٹکتا ہوا جگنو | مہتاب تیرا ریزۂ نقشِ کف پا ہے | |
تلمیحِ شبِ قدر ترا عکسِ تبسّم | "نوروز" ترا حسنِ گریبانِ قبا ہے | |
ہر صبح ترے فرقِ فلک ناز کا پرتو | ہر شام ترے دوشِ معلیٰ کی رِدا ہے | |
تارے، ترے رہوار کے قدموں کےشرارے | گردوں ترا دریوزہ گرِ آبلہ پا ہے !! | |
یا تیرے خدوخال سے خیرہ مہ و انجم | یا دُھوپ نے سایہ ترا خود اوڑھ لیا ہے | |
یا رات نے پہنی ہے ملاحت تری تن پر | یا دِن ترے اندازِ صباحت پر گیا ہے !! | |
یٰسین، ترے اسمِ گرامی کا ضمیمہ | ہے نون تری مدح، قلم تیری ثناء ہے | |
واللیل تیرے سایۂ گیسو کا تراشہ | "والعصر" تری نیم نگاہی کی ادا ہے | |
فاقوں سے خمیدہ ہے سدا قامتِ درباں | ٹھوکر میں مگر سلسلۂ اَرض و سَما ہے | |
غیروں پہ بھی الطاف ترے سب سے الگ تھے | اپنوں پہ نوازش کا بھی انداز جدا ہے | |
دل میں ہو تری یاد تو طوفاں بھی کنارا | حاصل ہو ترا لطف تو صَرصَر بھی صبا ہے | |
لمحوں میں سمٹ کر بھی ترا درد ہے تازہ | صدیوں میں بکھر کر بھی ترا عشق نیا ہے | |
دیکھوں تو ترے در کی غلامی میں ہے شاہی | سوچوں تو ترا شوق مجھے "ظلِّ ہُما" ہے! | |
رگ رگ نے سمیٹی ہے تیرے نام کی فریاد | جب جب بھی پریشاں مجھے دنیا نے کیا ہے | |
خالق نے قسم کھائی ہے اُس شہرِ اماں کی | جس شہر کی گلیوں نے تجھے ورد کیا ہے | |
یہ قوِ قزح ہے کہ سرِ صفحۂ آفاق! | برسات کی رُت میں ترا محرابِ دُعا ہے | |
ہر سمت ترے لطف و عنایات کی بارش | ہر سُو ترا دامانِ کرم پھیل گیا ہے | |
اب اور بیاں کیا ہو کسی سے تری مدحت؟ | یہ کم تو نہیں ہے کہ تو محبوبِ خدا ہے! | |
سورج کو اُبھرنے نہیں دیتا تیرا حبشی | بے زر کو ابوزؔر تیری بخشش نے کیا ہے | |
ہے موجِ صبا یا تری سانسوں کی بھکارن؟ | ہے موسمِ گل یا تری خیراتِ قبا ہے | |
خورشید قیامت بھی سر افراز بہت ہے | لیکن ترے قامت کی کشش اس سے سوا ہے | |
زَم زَم ترے آئینِ سخاوت کی گواہی | کوثر ترا سرنامۂ دستورِ عطا ہے | |
جلتا ہوا مہتاب ترا رَہروِ بے تاب | ڈھلتا ہوا سورج ترے خیمے کا دِیا ہے | |
ثقلین کی قسمت تیری دہلیز کا صدقہ | عالم کا مقدر تیرے ہاتھوں میں لکھا ہے | |
اُترے گا کہاں تک کوئی آیات کی تہ میں | قرآں تری خاطر ابھی مصروفِ ثنا ہے!! | |
محشر میں پرستار ترے یوں تو بہت تھے | صد شکر مرا نام تجھے یاد رہا ہے | |
اے گنبدِ خضریٰ کے مکیں میری مدد کر! | یا پھر یہ بتا کون مرا تیرے سوا ہے؟ | |
بخشش تیری آنکھوں کی طرف دیکھ رہی ہے | محسن تیرے دربار میں چُپ چاپ کھڑا ہے[1] |
حوالہ جات
- ↑ محسن نقوی، فرات فکر: ص17
مآخذ
- محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.