"مجرئی طبع کند ہے لطفِ بیاں گیا" کے نسخوں کے درمیان فرق
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = میر مستحسن خلیؔق | قالب = سلام | وزن = مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن | موضوع = غمِ اسیران | مناسبت = | زبان = اردو | تعداد بند = 23 بند | منبع = }} '''مجرئی طبع کند ہے لطفِ بیاں گیا:''' میر خ...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا) |
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
(ایک ہی صارف کا ایک درمیانی نسخہ نہیں دکھایا گیا) | |||
سطر 12: | سطر 12: | ||
| منبع = | | منبع = | ||
}} | }} | ||
'''مجرئی طبع کند ہے لطفِ بیاں گیا:''' [[میر خلیق]] کا لکھا ہوا سلام ہے۔ | '''مجرئی طبع کند ہے لطفِ بیاں گیا:''' جناب [[میر خلیق]] کا لکھا ہوا سلام ہے۔ | ||
==تعارف== | ==تعارف== | ||
اس سلام میں زیادہ تر واقعہ کربلا کے بعد اہل حرم کو | اس سلام میں زیادہ تر واقعہ کربلا کے بعد اہل حرم کو پیش آنے والے مصائب کا ذکر پایا جاتا ہے۔ | ||
==مکمل کلام== | ==مکمل کلام== | ||
{{شعر}} | {{شعر}} |
حالیہ نسخہ بمطابق 22:19، 12 دسمبر 2023ء
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر مستحسن خلیؔق |
قالب | سلام |
وزن | مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن |
موضوع | غمِ اسیران |
زبان | اردو |
تعداد بند | 23 بند |
مجرئی طبع کند ہے لطفِ بیاں گیا: جناب میر خلیق کا لکھا ہوا سلام ہے۔
تعارف
اس سلام میں زیادہ تر واقعہ کربلا کے بعد اہل حرم کو پیش آنے والے مصائب کا ذکر پایا جاتا ہے۔
مکمل کلام
مجرئی طبع کند ہے لطفِ بیاں گیا | دنداں گئے کہ جوہرِ تیغِ زباں گیا | |
سینوں میں قدسیوں کے جگر کانپنے لگے | جب نالۂ حسین ؑ سوئے آسماں گیا | |
جب تک گڑی نہ لاشِ سلیمانِ کربلا | طائر نہ کوئی اڑ کے سوئے آشیاں گیا | |
پھیلا کے ہاتھ شیرِ الٰہی لپٹ گئے | فردوس میں حسین ؑ کہ جب میہماں گیا | |
رو کر یہ بعدِ رخصتِ حر کہتے تھے حسینؑ | گھر سے سخی کے تشنہ دہن میہماں گیا | |
فضلِ خدا جو ہو تو نہیں کچھ بہشت دور | دیکھو نصیبِ حر کہ کہاں سے کہاں گیا | |
کہتی تھی ماں دلہن بھی نہ اکبرؑ کی دیکھی ہائے | ناشاد و نامراد مرا نوجواں گیا | |
عابد ؑ کے راہِ شام میں شانے جو تھے فگار | کوسوں سنبھالتا ہوا طوقِ گراں گیا | |
بخشی تھی جس کے جد نے قطار اشتروں کی آہ | رسّی وہ کھینچتا صفتِ سارباں گیا | |
لے کر قدِ خمیدہ کو اپنے کہاں پھریں | گوشہ ہی پھر ہے خوب جو زورِ کماں گیا | |
خالی پڑی ہیں خلق میں کیا کیا عمارتیں | ہاں کس مکیں کے ساتھ بتاؤں مکاں گیا | |
زینب ؑ اسیرِ غم رہیں دنیا میں تا بہ مرگ | نا زخمِ دل گئے نہ رسن کا نشاں گیا | |
سجاد ؑ کہتے تھے پدرِ فاقہ کش کے ساتھ | لطفِ حیات اور مزۂ آب و ناں گیا | |
جھک جھک گئیں بہشت میں طوبیٰ کی ڈالیاں | جس وقت رن میں فوجِ خدا کا نشاں گیا | |
اترا جو سر تو حلقِ شہِ دیں نے دی صدا | شکرِ خدا کہ دوش سے بارِ گراں گیا | |
تکیہ تھا جس کا دوشِ پیمبرؐ ہزار حیف | وہ سر بدن سے کٹ کے بہ نوکِ سناں گیا | |
سجاد ؑ کہتے تھے مِرے ساتھی بچھڑ گئے | حیراں ہوں کس سے پوچھوں کدھر کارواں گیا | |
سجاد ؑ کہتے تھے کہ پہنچنا محال ہے | واحسرتا کہ دور بہت کارواں گیا | |
بے ساختہ یزید کے آنسو نکل پڑے | آہوں کا یہ حرم کی محل میں دھواں گیا | |
ماتم رہا مزارِ محمدؐ پہ تین دن | سادات کا لٹا ہوا جب کارواں گیا | |
بانو سے پوچھتی تھی سکینہ ؑ جو شام میں | اماں تمہاری گود سے اصغر ؑ کہاں گیا | |
کہتی تھی وہ کہاں کا پتا دوں سکینہ ؑ جاں | وہ بھی وہیں گئے علی اکبر ؑ جہاں گیا | |
گزری بہارِ عمر، خلیؔق اب کہیں گے سب | باغِ جہاں سے بلبلِ ہندوستاں گیا[1] |
حوالہ جات
- ↑ کشمیری، مراثئ میر خلیؔق: ص21
مآخذ
- کشمیری، اکبر حیدری ( پروفیسر)، مراثئ میر خلیؔق، کراچی، مرثیہ فاؤنڈیشن، 1418ھ/ 1997ء