زہے یہ فصلِ گل،یہ رنگ و نکہت کی فرانی

شیعہ اشعار سے
زہے یہ فصل گل،یہ رنگ و نکہت کی فراوانی
معلومات
شاعر کا نامساحر لکھنوی
قالبغزل
وزنمفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
موضوعامام زمانہ ٔ
مناسبت15 شعبان المعظم
زباناردو


زہے یہ فصل گل،یہ رنگ و نکہت کی فراوانی:یہ امام زمانہ ٔ کی شان میں ساحر لکھنؤی کا لکھا ہوا قصیدہ ہے.

تعارف

"فصلِ گل" کے عنوان سے لکھا گیا یہ طویل قصیدہ 83 اشعار پر مشتمل ہے،اس قصیدے کی تمہید میں حسنِ موجودات عالم اور مظاہرِ قدرت کے دلنشین مناظر کا نہایت دلکش انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔پھر اس کے بعد فخر موجودات،قطبِ عالم امکاں،یوسف زہرأ کی مدی سرائی کی گئی ہے،اور ساتھ ساتھ آپ کی غیبت کبریٰ،فلسفۂ غیبت،انتظار اور آپٔ کے ظہورِ نورانی کے فوائد کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔

مکمل کلام

​زہے یہ فصل گل،یہ رنگ و نکہت کی فراوانی
کہ جس کو دیکھ کر ہے چشم نرگس کو بھی حیرانی
​ردائے سبز تاحدِ نظر پھیلی ہے گلشن میں
بہاروں نے چھپائی ہے سر گیتی کی عریانی
نہالان چمن پر ہے سرور وکیف کا عالم ​
کسی کی آنکھ میں نشہ،کسی کی چال مستانی
​حسینان چمن کی دیکھ کراٹھتی جوانی کو
بہاروں نے اوڑھائے ہیں دوپٹے سبز اور دھانی
​بنے ہیں خارسوزن دست خیاط خیاط بہاراں کی
قبائے لیلیؑ مدحت جوہے پھولوں کو سلوانی
​ چمن میں اس طرح بکھری ہے شبنم جیسے فطرت نے
قبائے سبز پر ٹانکے ہوں مرواریدِ عمانی
ہے برگ گل پہ عکس رنگ گل سے سرخ شبنم بھی ​
ہوں جیسے زیب تاج خسروی لعل بد خشانی
دو شالے سبز اوڑھے ہیں نہالان گلستاں نے ​
گل و لالہ نے پہنی ہیں قبائیں سرخ رمانی
​ یہ شاخ گل پہ کانٹے جو نظر آتے ہیں گلشن میں
گڑے ہیں یہ خزاں کے دل میں نشتر ہائے پنہانی
جو دیکھا شب کی چلمن سے یہ حسن صبح تاب اس کا ​
گل نرگس پہ صدقے ہورہی ہے رات کی رانی
ہیں چشم نرگس شہلا میں یوں ڈورے گلابی سے ​
لکھی ہوں جیسے جام مئے پہ کچھ آیات قرآنی
​یہ پتوں سے پھسل کراوس کے قطرے نہیں ٹپکے
خزاں کی ساری امیدوں پہ یکسر پھر گیا پانی
مزہ ہی کیا تھا اس فصل گل ورنگ گلستان کا
اگر ہم بادہ خواروں پہ نہ ہوتا فضل ربانی
مبارک ہو وہ اٹھے سامرہ سےجھوم کر بادل ​
برستاہے جھما جھم مثل صہبائے ولا پانی
جو ہوجائے شرابور اس مئے غیبت کی بارش سے ​
فرشتوں سے قسم کھلوائے اسکی پاک دامانی
درمیخانہُ غیبت کُھلا ہے، میکشو آؤ ​
دلوں کے جام بھر بھر کرپیٔو صہبائےایمانی
ہجوم میکشان حق میں اک ساحر بھی شامل ہے ​
ہے آج اس میکدے میں یہ مئے ایمان کی ارزانی
اُٹھایاجام بیتابی میں جو منہ سے لگانے کو ​
حد ساغر سے آگے بڑھ گئ اک موج طوفانی
ٹپک کر لب کے نیچے ایک قطرہ مئے کایوں ٹھہرا ​
کہ جیسے بائے بسم اللہ کا نقطہ ہوتحتانی
​ہے ساغر ہاتھ میں اک آفتاب مدح کی صورت
اٌفق پہ ذہن کےہے مطلعِ نوَکی درخشانی
​ہمارے جامِ مدحت میں ہے وہ صہبائے ایمانی
کہ اِس ساغر کے آگے چاہِ زمزم بھی بھرے پانی
​غمِ ہجراں،غمِ دنیا،غمِ دوراں،غمِ جاناں
ہم اسطمءں غرق کردیتے ہیں اپنی ہر پریشانی
​اٹھانا جھوم کر ساغر پھر اس کو چوم کر پینا
یہی اپنا طریقہ ہے،یہی آدابِ ایمانی
​جو کر دیتے ہیں خالی جام، اس کو پھر الٹ کر ہم
اسی پر شکر کے سجدے کو رکھ دیتے ہیں پیشانی
​صراحی دیکھتی ہے جُھک کےایسے ظرف ساغر کا
کہ جیسے طور کوجُھک جُھک کے دیکھے اوجِ فارانی
​ہے یوں پیرِ مغاں کو وحشت اس ساغر کی صہباسے
کہ جیسے سگ گزیدہ ڈر رہا ہو دیکھ کر پانی
​نظرآتا نہیں اس مکیدہ میں زاہدِبے دیں
اَناکی قید سے چھوٹے گاآخر کب یہ زندانی
​مہہِ شعبان میں بھی سُوکھے ہیں مُنھ،جیسے ہوں روزے سے
وہ ناصح ہوکہ واعظ،سب ازل ہی سے ہیں رمضانی
اِدھر واسامرہ میں ہے درِ میخانۂ مدحت ​
اُدھر ہےساحلِ خضرا پہ بزَمِ تہنیت خوانی
گئے ہیں دَورِ مستقبل سے چل کر عہدِ ماضی میں ​
منیر و غالب وخر سبھی بہرِ ثنا خوانی
ہیں حاضر پیش کرنے کو قصیدے مدح ساقی میں ​
عزیز و انوری و ساحر وسودا و قآنی
​نہ کیوں ہوں جمع اہلِ ذوق اب شوقِ سماعت میں
سخنورہیں یہ وہ جن کی مسلمّ ہے سخندانی
کسی نے شمعِ محفل رکھ دی یہ کہہ کر مرےآگے ​
ہوا ہے حکم اب ساحر کو بہرِ منقبت خوانی
مجھے یہ فکر لا حق ہوگئ یہ حکم سُنتے ہی ​
کہاں میں اور کہاں مدحت کا اورنگِ سلیمانی
میرا کیا کام اُستادانِ فن کی بزَم میں آخر ​
کہاں میں اور کہاں یہ شاعرانِ بزمِ روحانی
​مرا ذوقِ سُخن تو ہے ابھی طفلی کی منزل میں
عقیدت کررہی ہے فکر کی گہوارہ جنبانی
​قصیدہ جن کا پڑھنا ہے اگر کچھ وہ مدد کردیں
تو کیا مشکل ہے جو مشکل میں بھی پیدا ہو آسانی
خدا چاہے تو زلفِ لیلیِ مدحت سنواریں گے
ہے یہ بھی کیا کوئی زلفِ شبِ غم کی پریشانی
​مئے مدحت جو برسے گی تو کیھتی لہلہائے گی
ہماری مزرعِ تخیئل بھی ہے کشتِ بارانی
ہو روشن مطلعِ نوَ پھر ضیائے مہرِ مدحت سے ​
کہ جیسے آفتابِ عسکری کی رجعتِ ثانی
​حجابوں میں ہے ماہِ نیمئہ شعبان کی تابانی
ہو جیسے فکر کے پردوں میں پنہاں نورِ یزدانی
ذرا دیکھے تو کوئی مہرِ نرجس کی درخشانی ​
ہٌوا ہے پردۂ ظلمات تک جلوؤں سے نورانی
​اُفق پر سامرہ کے ہے وہ جلوؤں کی فراوانی
رہے گا تا قیامت اب زمانہ جن سے نورانی
​نظر نورِ نظر میں آیئں جب انوارِ یزدانی
نہ کیوں ہو چشمِ نرجس نرگسِ گلزارِ حیرانی
کہیں بجتے ہیں نقاّرے کہیں ہے اشک افشانی ​
گرجتے ہیں کہیں بادل برستا ہے کہیں پانی
چراغِ مہر ومہہ لے کر جو ڈھونڈیں گے فلک والے ​
نہ ان کے بعد پایئں گے کہیں ان کا کوئی ثانی
ہوا حیراں یہ صورت دیکھ کر آغوشِ نرجس کا ​
کسی صورت نہیں جاتی ہےآیئنہ کی حیرانی
مبارک ہو امامِ عسکری یہ پھول نرجس کا ​
مٌعطّر جس سے تا محشر رہے گی روحِ ایمانی
قیامت کی چمک جس میں ہے وہ جوہر ملا ہم کو ​
حرم سے سامرہ تک ہر گلی کی خاک جب چھانی
وہ جلوہ ہے نگاہِ شوق سے ​پنہاں تو حیرت کیا
نظر آتے ہے کب انسان کو اَسرارِ رباّنی
​اٌس تو خواب میں بھی وہ نظر آئیں یہ ناممکن
نہ شوقِ دید میں جودے سکے خوابوں کی قربانی
​وہ معراجِ محمد ہو کہ ان کی غَیبتِ کبریٰ
حدِ امکان سے باہر ہے یہ حَدِّ اوجِ انسانی
کسے معلوم تھا جب کرکے وعدہ وہ ہوئے رخصت ​
کہ ہو جائے گی ابکی یہ شبِ ہجراتنی طولانی
​تمنّا ناپتی رہ جائے گی طولِ شبِ ہجرانی
محبتّ دیکھتی رہ جائے گی اپنی گَراں جانی
​سَمجھ سکتا ہے کون اِس رازِ طولِ عُمر و غَیبت کو
ابھی گہوارہ طفلی میں ہے ادرکِ انسانی
وہ ہےموجودِ محفل میں مگر جلوؤں کی تابش سے ​
ہماری چشمِ کم بینا نے وہ صورت نہ پہچانی
عیاں یوں چشمِ دل پر، سامنے بیٹھے ہوں وہ جیسے ​
نہاں آنکھوں سے یوں ہیں جس طرح اَسرارِ پنہانی
​نہ پایا کچھ پتہ اس شاہدِ غَیبیت کا پیری نے
اگر چہ خاک ماہ و سال کی اس نے بہت چھانی
​بشر تو کیا تصّورکورسائی مل نہیں سکتی
جلالت کررہی ہے یوں درِ دولت کی دربانی
​نقابِ رخ الٹنے دیجئے پھر دیکھ لیجئے گا
قیامت پر قیامت ڈھائے گی وہ جلوہ سامانی
نظر آئے قمر در عقرب انکی چاہ میں یوسف ​
کہاں یہ مِہر غَیبت اور کہاں وہ ماہِ کنعانی
کِیا یہ نام ہم نے نقش جب دل کے نگینہ پر ​
ہمیں حیرت سے تکتا رہ گیا نقشِ سلیمانی
​پریشانی کا اپنی اب مداوا مل گیا ہم کو
پریشاں پھر رہی ہے اب ہماری ہر پریشانی
جو وہ ہم سے گہنگاروں کو چشمِ لطف سے دیکھیں ​
تو اک موجِ کرم بن جائے اُن کا خطِّ پیشانی
​کبھی خاطر میں وہ لاتے نہیں شاہی کی سطوت کو
غلاموں کی نظر میں ہیچ ہے اورنگِ سلطانی
ظہورِ حضرت حجت جو ہوگا عین کعبہ میں ​
مَلَک دیکھیں گے حیرت سے شکوہِ حیدرِ ثانی
رُخِ روشن پہ صدقہ آفتابِ صُبح کی کرنیں ​
نچھاور گوہرِ دنداں پہ مرواریدِ عٌمّانی
سر اقدس پہ سایہ رحمتِ باری کے بادل کا ​
پرِ جبریل پہیم ہوگا مصروفِ مگس رانی
عبا ہے عظمت آلِ عباکی جسمِ اطہر پر ​
عمامہ ہے رسول اللہ کا،جامہ ہے قرآنی
ادھر ماتھے پہ نورِ طالعِ بیدار کی تابش ​
ادھربازو پہ جاءالحق کی آیت کی درخشانی
​علی کی تیغ کے قبضہ پہ ہوگا ہاتھ حضرت کا
نظرمیں خاندانِ مُصطفےٰ کی خانہ ویرانی
​اٹھیں گے غیظ میں جب انتقامِ خونِ ناحق کو
توہر ظالم کا ِپتّہ خوف سے ہوجائے گا پانی
معہِ لشکر وہ فرعونِ دمشقی ڈوب جائے گا ​
سروں سے یوں گزر جاۓ گا انکی تیغ کا پانی
​چھپاۓ چٌھپ نہیں سکتا انفاق و ظلم کا چہرہ
یزیّت کی قسمت ہے بس اب ملبوسِ عریانی
کریں انسانیت کو قُم بٍاذنی کہہ کے یوں زندہ ​
دمِ عیسیٰ کو بھی ہو اس مسیحائی پہ حیرانی
جہانِ ظلم میں پھر دور دورہ عدل کا ہوگا ​
پئیں گے گوسفند و شیر سب اک گھاٹ پر پانی
غریبوں پر نہ ہوگا ظلم کوئی آپ کے ہوتے ​
کہاں رہ جائے گی دٌنیا میں سلطانوں کی سلطانی
کریں گے کفش برداری وہ خود اِن کے غلاموں کی ​
جنھیں دٌنیا کہا کرتی تھی اب تک ظلِّ سبحانی
غنی ہوجاۓ گا اِن کے کرم سے یوں ہر اک مفلس ​
کرے گی مورِ بے مایہ سلیماں کی بھی مہمانی
​کرم کا ابَر بھی برسے گا اور چشمے بھی پھوٹیں گے
کوئی کھیتی نہ سوکھے گی وہ نہری ہو کہ بارانی
فقط بطنِ صدف کیا، قید کیسی بحر و دریا کی ​
گہر برساۓ گا ہر دشت و در میں ابرِ نیساں
کریں گے آپ یوں آباد پھر دنیاۓ ویراں کو ​
نہ پاۓ گا کوئی بومِ نحوست جاۓ ویرانی
ہیں ساحر ہم ابھی سے شامل اِنکے جاں نثاروں میں ​
تہہِ تیغِ قلم ہے اِن کا اک اک دشمنِ جانی[1]

حوالہ جات

  1. ساحر لکھنؤی،صحیفۂ مدحت،ص293 تا 305

مآخذ

  • ساحر لکھنؤی،صحیفۂ مدحت،کراچی،آثار و اکادمی،1997ء۔