جگر تھا مجرئی کیا فاطمہ ؑ کے پیاروں کا

شیعہ اشعار سے
جگر تھا مجرئی کیا فاطمہ ؑ کے پیاروں کا
معلومات
شاعر کا ناممیر مستحسن خلیؔق
قالبسلام
وزنمفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن
موضوعشہداء و اسیران کربلا کے مصائب
زباناردو
تعداد بند18 بند


جگر تھا مجرئی کیا فاطمہ ؑ کے پیاروں کا: جناب میر خلیق کا تصنیف کردہ سلام ہے۔

تعارف

اس سلام میں کربلا اور بعد از کربلا کے مصائب بیان کئے گئے ہیں۔ ناقلین کی سہل انگاری ہے یا شاعر کا عمدی عمل، نہیں معلوم! واقعات کے حوالے سے ترتیب کی رعایت مدنظر نہیں ہے۔

مکمل کلام

جگر تھا مجرئی کیا فاطمہ ؑ کے پیاروں کاہر اِک نے ان میں کیا سامنا ہزاروں کا
چلے بزرگوں کی قبروں سے کہہ کے کوفے کو شاہمجاور اب نہیں پھرنے کا ان مزاروں کا
رفیق رن میں جو ہوتے تھے قتل کہتے تھے شاہفلک ہے دشمنِ جاں میرے دوستداروں کا
پھرے ہیں گردِ سرِ شمع جیسے پروانےہجوم شہ ؑ پہ تھا اس طرح جاں نثاروں کا
ادھر سے جاکے ہٹا دیتا تھا انہیں عباسؑجب آگے بڑھتا اُدھر سے پرا سواروں کا
جگر پہ چلنے لگیں برچھیاں سی بانو کےہوا ہجوم جو اکبر ؑ پہ نیزہ داروں کا
لعیں نے زخمی کئے کان وہ سکینہ ؑ کےاٹھا نہ سکتے تھے جو بوجھ گوشواروں کا
چلے تھے کانٹوں پہ یاں تک پیادہ پا سجادؑہر ایک آبلہ گھر بن گیا تھا خاروں کا
حرم کو اونٹوں پہ سر ننگے دیکھ کہتی تھی خلقیہ رتبہ پہنچا صد افسوس پردہ داروں کا
لعیں جو کہتے تھے عابد ؑ سے جلد چل کہتاپیادہ پا سے نبھا ساتھ کب سواروں کا
بنا کے قبر شہیدوں کی کہتے تھے سجادؑنشاں مٹے گا نہ تا حشر ان مزاروں کا
جہاں تھا لاشۂ شہ ؑ واں بنی اسد ہر شبفلک سے دیکھتے تھے ٹوٹنا ستاروں کا
حرم جو قید میں روتے تو کہتا حاکمِ شامنہ سونے دے گا مجھے شور سوگواروں کا
حرم شہیدوں کو منہ ڈھانپ ڈھانپ کر روئےنشاں بنا چکے سجاد ؑ جب مزاروں کا
جب آئی خلد سے باچشمِ خونفشاں زہراؑکہا یہ دیکھ کے کھیت اپنے گلعذاروں کا
نہ آیا رحم تجھے آہ چرخِ نا انصافمقام خاک ہوا عرش کے ستاروں کا
سدا جو روئے گا شہ ؑ کو وہ بخشا جائے گایہی تو غم ہے وسیلہ گناہ گاروں کا
گلے پہ اصغرِ ؑ معصوم کے بھی مارا تیرستم خلیؔق کہے کیا جفا شعاروں کا[1]

حوالہ جات

  1. کشمیری، مراثئ میر خلیؔق: ص47

مآخذ

  • کشمیری، اکبر حیدری ( پروفیسر)، مراثئ میر خلیؔق، کراچی، مرثیہ فاؤنڈیشن، 1418ھ/ 1997ء