اے رب جہاں
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | محسن نقوی |
قالب | غزل |
وزن | مفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن |
موضوع | دعا |
زبان | اردو |
تعداد بند | 20 |
اے رب جہاں: حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کی مشہور منظوم دعا ہے۔
تعارف
اس منظوم دعا کے مطلع میں غمِ حسین ؑ کی دولت سے مالا مال ہونے کی دعا کی گئی ہے، اسی طرح خاص طور پر بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور ماؤں بہنوں کے لیے دعا کی گئی ہے کہ رب دوجہاں انہیں کربلا کی عظیم شخصیات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مکمل کلام
اے ربِ جہاں پنجتنِ پاکؑ کے خالق | اس قوم کا دامن غمِ شبیر ؑ سے بھر دے | |
بچوں کو عطا کر علی اصغرؑ کا تبسم! | بوڑھوں کو حبیب ابنِ مظاہر کی نظر دے | |
کمسن کو ملے ولولۂِ عون و محمّد | ہر ایک جواں کو علی اکبر ؑ کا جگر دے | |
ماؤں کو سکھا ثانیِ زہرا ؑ کا سلیقہ | بہنوں کو سکینہؑ کی دعاؤں کا اثر دے | |
یا رب تجھے بیماری عابد ؑ کی قسم ہے | بیمار کی راتوں کو شفایاب سحر دے | |
مفلس پہ زر و لال جواہر کی ہو بارش | مقروض کا ہر قرض ادا غیب سے کر دے | |
پابندِ رسن زینب ؑ و کلثوم ؑ کا صدقہ | بے جرم اسیروں کو رہائی کی خبر دے | |
جو مائیں بھی روتی ہیں بیادِ علی اصغر | ان ماؤں کی آغوش کو اولاد سے بھر دے | |
جو حق کے طرفدار ہوں وہ ہاتھ عطا کر | جو مجلسِ شبیرؑ کی خاطر ہو وہ گھر دے | |
قسمت کو فقط خاکِ شفا بخش دے مولا | میں یہ نہیں کہتا کہ مجھے لعل و گہر دے | |
آنکھوں کو دکھا روضۂ مظلوم کا منظر | قدموں کو نجف تک بھی کبھی اذنِ سفر دے | |
جو چادرِ زینب ؑ کی عزادار ہیں مولا | محفوظ رہیں ایسی خواتین کے پردے | |
غم کوئی نہ دے ہم کو سوائے غمِ شبیر ؑ | شبیر ؑ کا غم بانٹ رہا ہے تو ادھر دے | |
کب تک رہوں دنیا میں یتیموں کی طرح میں | وارث مرا پردے میں ہے ظاہر اُسے کردے | |
منظور ہے خوابوں میں بھی آقا کی زیارت | پرواز کی خواہش ہے نہ جبریل کے "پر" دے | |
جس در کے سوالی ہیں فرشتے بھی بشر بھی | آوارۂ منزل ہوں مجھے بھی وہی در دے | |
جو دین کے کام آئے وہ اولاد عطا کر | جو کٹ کے بھی اونچا ہی نظر آئے وہ سر دے | |
خیرات درِ شاہ نجف چاہیے مجھ کو | سلمان و ابوذر کی طرح کوئی ہنر دے | |
صحراؤں میں عابد ؑ کی مسافت کے صلے میں | بھٹکے ہوئے رَہرو کو ثمردار شجر دے | |
سر پر ہو سدا پرچمِ عباس ؑ کا سایہ | محسن کی دعا ختم ہے اب اس کو اثر دے[1] |
حوالہ جات
- ↑ محسن نقوی، فراتِ فِکر: ص181۔
مآخذ
- محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.