ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر انیس |
قالب | سلام |
وزن | فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
موضوع | انسان کی بیچارگی |
زبان | اردو |
تعداد بند | 11 بند |
ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے: جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔
تعارف
اس کلام میں زیادہ تر انسان کی کمزوری اور بیچارگی کا یقین دلایا گیا ہے کہ اس کے جسم کی تخلیق کا آغاز ہی کمزوری سے ہوتا ہے اور انجام بھی خاک ہونے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وہ دنیا میں دو چار دنوں کا مہمان ہے انہی ایام میں اسے خاکساری اور تواضع سے کام لینا چاہیے، کیونکہ جتنا وہ منکسر المزاج ہوگا اتنی ہی رفعت و سربلندی نصیب ہوگی اور یہ حقیقت بھی مدنظر رہے کہ دنیا میں تخت و سلطنت پر براجمان رہنے والوں کی قبروں کے نشان تک نہیں ملتے۔
مکمل کلام
ابتدا سے ہم ضعیف و ناتواں پیدا ہوئے | اُڑ گیا جب رنگ رُخ سے، استخواں پیدا ہوئے | |
خاکساری نے دکھائیں رفعتوں پر رفعتیں | اس زمیں سے واہ کیا کیا آسماں پیدا ہوئے | |
علمِ خالق کا خزانہ ہے، میانِ کاف و نون | ایک کُن کہنے سے یہ کون و مکاں پیدا ہوئے | |
ہاتھ خالی آئی لاشوں پر شہیدوں کے نسیم | پھول بھی اس فصل میں ایسے گراں پیدا ہوئے | |
نوبتِ جمشید و دارا و سکندر اب کہاں | خاک تک چھانی، نہ قبروں کے نشاں پیدا ہوئے | |
جو عدم سے آگیا دنیا میں بولی ہنس کے موت | اور لو، دو چار دن کے میہماں پیدا ہوئے | |
ضبط دیکھو، سب کی سُن لی پر نہ کچھ اپنی کہی | اس زباں دانی پہ گویا بے زباں پیدا ہوئے | |
جان دی حُر نے تو حضرت نے دیا باغِ ارم | میہماں ایسے، نہ ایسے میزباں پیدا ہوئے | |
بود و نابودِ علی اصغر کا کیا کیجے بیاں | بے زباں دنیا سے اُٹھے بے زباں پیدا ہوئے | |
دیکھ کر لاشوں کو حضرت کہتے تھے وا غربتا | موت لے آئی کہاں ان کو کہاں پیدا ہوئے | |
احتیاطِ جسم کیا، انجام کو سوچو انیسؔ | خاک ہونے کو یہ مشتِ استخواں پیدا ہوئے[1] |
حوالہ جات
- ↑ رضوی،روح انیس: ص249
مآخذ
- رضوی، سید مسعود الحسن، روح انیس، الٰہ آباد، انڈین پریس لمیٹڈ، بی تا.