آ کے جو بزمِ عزا میں رو گئے
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر انیس |
قالب | سلام |
وزن | فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
موضوع | مصائب کربلا |
زبان | اردو |
تعداد بند | 13 بند |
آ کے جو بزمِ عزا میں رو گئے: خدائے سخن جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔
تعارف
اس سلام میں اشکِ عزا کی اہمیت، حضرت علی اصغر ؑ کی مظلومیت اور جناب عابد بیمار ؑ کی غربت کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔
مکمل کلام
آ کے جو بزمِ عزا میں رو گئے | مجرئی! وہ فردِ عصیاں دھو گئے | |
یاد آیا دامنِ مادر کا چین! | پاؤں پھیلا کر لحد میں سو گئے | |
اشک کیا نکلیں کڑے احوال پر | سنتے سنتے قلب پتھر ہو گئے | |
موت آئی ہے محبّو، "الفراق" | آج سب وعدے برابر ہو گئے | |
ہاتھ سے جاتا رہا نقدِ حیات | جان لے کر آئے، بے جاں ہو گئے | |
عالمِ فانی میں ہم کو کیا[1] ملا | اور کچھ اپنی گرہ سے کھو گئے | |
راحت آبادِ عدم ہے خوب جا | پھر نہ آئے وہ، جہاں سے جو گئے | |
ہتھکڑی اور بیڑیوں کو دیکھ کر | دست و پا عابد کے ٹھنڈے ہو گئے | |
چھد گیا مثلِ گہر ناوک سے حلق | لعل سی جاں اپنی اصغر ؑ کھو گئے | |
خون گردن سے جو نکلا گرم گرم | بھر کے آہِ سرد ٹھنڈے ہو گئے | |
آ کے تربت پر[2] پکارے شاہِ دیں | ہائے آج اصغر ؑاکیلے ہو گئے | |
احمد و زہرا و حیدر اور حسن | آ کے سب لاشے پہ حُر کے رو گئے[3] | |
عالمِ پیری میں یہ غفلت انیس | رات بھر جاگے، سحر کو سو گئے[4] |
حوالہ جات
مآخذ
- زیدی، علی جواد، انیؔس کے سلام، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، طبع اول، 1981ء.