369
ترامیم
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{جعبه اطلاعات شاعر | {{جعبه اطلاعات شاعر | ||
| نام = | | نام = | ||
| تصویر = | | تصویر = | ||
| توضیح تصویر = | | توضیح تصویر = | ||
| | | پورا نام = سید غلام عباس | ||
| | | تخلص = محسن | ||
| لقب = حمّادِ اہل بیت | | لقب = حمّادِ اہل بیت | ||
| | | اساتذہ = | ||
| | | تلامذہ = | ||
| محل ولادت = ڈیرہ غازی خان | |||
| تاریخ ولادت = 5 مئی 1947ء | |||
| محل | |||
| تاریخ | |||
| محل زندگی = لاہور | | محل زندگی = لاہور | ||
| | | وفات = 18 جنوری 1998ء | ||
| | | مدفن = ڈیرہ غازی خان | ||
| | | کتابیں = فرات فکر، موجِ ادراک، حق ایلیا | ||
| | | تعلیمی شعبہ = | ||
}} | }} | ||
'''محسن نقوی''' (1947-1996ء)پاکستان کے بڑے قادر الکلام شاعر اور ذاکر اہل بیت ؑ تھے۔ | '''محسن نقوی''' (1947-1996ء)پاکستان کے بڑے قادر الکلام شاعر اور ذاکر اہل بیت ؑ تھے۔ | ||
==مختصر سوانح حیات== | ==مختصر سوانح حیات== | ||
محسن نقوی کا پورا نام سید غلام عباس تھا اور محسن تخلص۔ | محسن نقوی کا پورا نام سید غلام عباس تھا اور محسن تخلص۔ 5 مئی1947 کو ڈیرہ غازی خاں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پرائمری اسکول، ڈیرہ غازی خاں میں حاصل کی۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج، ڈیرہ غازی خاں(موجودہ نام ٹیکنکل انسٹی ٹیوٹ) میں تعلیم پائی۔ بعد ازاں ایم اے تک تعلیم حاصل کی۔ شاعری میں شفقت کاظمی اور عبدالحمید عدم سے رہنمائی حاصل کی۔<ref>شمس الحق، پیمانہ غزل: ج2، ص386</ref> | ||
محسن نقوی بیک وقت ذاکر و خطیب، شاعر، صحافی ، براڈ کاسٹر بھی تھے اور سیاست کے میدان بھی ان کے نقشِ کفِ پا ملتے ہیں۔ ان کی شاعری نے غزل کے محدود صفات اور فانی محبوت سے لامحدود صفات اور لافانی ممدوح کی ثنا تک کا سفر طے کیا ہے۔ محسن نقوی مرثیے کی ساری روایت کو مانتے تھے، عبادت کی طرح انیس اور دبیر کا احترام کرتے تھے، لیکن مرثیے کے جمود کی بجائے ارتقاء کے قائل تھے۔ عصری حسّیت اور وقت کی ضرورت کے ادراک پر زور دیتے تھے۔ انہوں نے لوازمِ مرثیہ سے انکار نہیں کیا مگر اپنے مرثیوں میں ان لوازم کے استعمال کو ضروری بھی نہیں سمجھا۔ وہ مرثیے میں "بین" سے زیادہ مقصدِ ذبحِ عظیم کو اہم سمجھتے تھے۔<ref>کاظمی، اردو مرثیے کا سفر، ص614</ref> | محسن نقوی بیک وقت ذاکر و خطیب، شاعر، صحافی ، براڈ کاسٹر بھی تھے اور سیاست کے میدان بھی ان کے نقشِ کفِ پا ملتے ہیں۔ ان کی شاعری نے غزل کے محدود صفات اور فانی محبوت سے لامحدود صفات اور لافانی ممدوح کی ثنا تک کا سفر طے کیا ہے۔ محسن نقوی مرثیے کی ساری روایت کو مانتے تھے، عبادت کی طرح انیس اور دبیر کا احترام کرتے تھے، لیکن مرثیے کے جمود کی بجائے ارتقاء کے قائل تھے۔ عصری حسّیت اور وقت کی ضرورت کے ادراک پر زور دیتے تھے۔ انہوں نے لوازمِ مرثیہ سے انکار نہیں کیا مگر اپنے مرثیوں میں ان لوازم کے استعمال کو ضروری بھی نہیں سمجھا۔ وہ مرثیے میں "بین" سے زیادہ مقصدِ ذبحِ عظیم کو اہم سمجھتے تھے۔<ref>کاظمی، اردو مرثیے کا سفر، ص614</ref> | ||
ان کی کتاب "فراتِ فکر" کے ایک مرثیے سے ان کی مرثیہ گوئی کے رجحانات کی نشاندہی ہوتی ہے؎ | ان کی کتاب "فراتِ فکر" کے ایک مرثیے سے ان کی مرثیہ گوئی کے رجحانات کی نشاندہی ہوتی ہے؎ |