دریا ہے ہمارا
دریا ہے ہمارا ڈاکٹر ہلال نقوی کا بہت خوبصورت کلام، جس میں حضرت عباس علمدار ؑ کی شجاعت و بہادری اور میدانِ وغا میں آپ ؑ کی رجزخوانی کو حسِین پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔
تعارف
یہ کلام مخمس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکمل کلام
دریا پہ جو پہنچا اسد اللہ کا پیارا | ||
للکار کے پھر فوج کو غازی یہ پکارا | ||
تم سب یہی کہتے تھے کہ دریا ہے ہمارا | ||
اب دیکھو کہ دریا ہے ہمارا یا تمہارا | ||
لو چھین لو یہ ہم ہیں یہ قبضہ ہے ہمارا | ||
دریــــا ہـــــے ہــــمـارا، دریـــــا ہــــے ہــمــــارا | ||
میں حیدر کرار کے سائے میں پلا ہوں | ||
میں فاطمہ زہرا کی دعاوں کا صلہ ہوں | ||
عباس میرا نام علمدار وفا ہوں | ||
یہ نام و نسب ہے میری قسمت کا ستارا | ||
دریــــا ہـــــے ہــــمـارا، دریـــــا ہــــے ہــمــــارا | ||
آقا کی دعاوں کا کرم ساتھ ہے میرے | ||
دیکھو بنی ہاشم کا حشم ساتھ ہے میرے | ||
رتبہ ہے علمدار علم ساتھ ہے میرے | ||
لہرا کے پھریرا بھی یہ کرتا ہے اشارہ | ||
دریــــا ہـــــے ہــــمـارا، دریـــــا ہــــے ہــمــــارا | ||
ساحل پہ جو یہ فوج کے دستے ہیں تمہارے | ||
اک آن میں پیوند زمیں ہوں ابھی سارے | ||
دریا الٹ آئے ابھی قدموں میں ہمارے | ||
اک حشر بپا کر دوں، میں کر دوں جو اشارہ | ||
دریــــا ہـــــے ہــــمـارا، دریـــــا ہــــے ہــمــــارا | ||
خط بھیج کے تم نے جنہیں یثرب سے بلایا | ||
مہمان تھے لیکن انہیں دریا سے ہٹایا | ||
پیاسے ہی رہے وہ انہیں پانی نہ پلایا | ||
اللہ نے جن کے لئے کوثر کو اتارا | ||
دریــــا ہـــــے ہــــمـارا، دریـــــا ہــــے ہــمــــارا | ||
یہ حکم ہے آقا کا نہ تلوار اٹھانا | ||
ورنہ میری ضربوں سے لرزتا یہ زمانہ | ||
یہ فوج جفا کار، یہ ظالم کا ٹھکانہ | ||
اک نیزے سے نقشہ ہی بدل جائے گا سارا | ||
دریــــا ہـــــے ہــــمـارا، دریـــــا ہــــے ہــمــــارا | ||
کیا فوج کی تعداد بتاتے ہو ہمیں تم | ||
ہم دیکھیں کہ کس طرح ہٹاتے ہو ہمیں تم | ||
کس حاکم و جابر سے ڈراتے ہو ہمیں تم | ||
اب نام نہ لینا کسی حاکم کا دوبارہ | ||
دریــــا ہـــــے ہــــمـارا، دریـــــا ہــــے ہــمــــارا | ||
پیاسا ہوں مگر سن لیں سبھی دشمن جانی | ||
پانی مجھے پینا نہیں، لے جانا ہے پانی | ||
ہائے میرے معصوموں کی وہ تشنہ دہانی | ||
ہے مشک سکینہ ان ہی پیاسوں کا سہارا | ||
دریــــا ہـــــے ہــــمـارا، دریـــــا ہــــے ہــمــــارا | ||
تاریخ نے دیکھا نہ ہلاؔل ایسا وفادار | ||
اب بھی ہے ترائی کی زمیں پر وہ دل افگار | ||
وہ دیکھ ذرا روضہ عباس علمدار | ||
اک زندہ گواہی ہے یہ مرقد کا نظارہ | ||
دریــــا ہـــــے ہــــمـارا، دریـــــا ہــــے ہــمــــارا[1] |
حوالہ جات
- ↑ ماخذ مطلوب ہے
مآخذ
- مصنف کا نام،کتاب کانام، مقام اشاعت، ناشر کا نام، سن اشاعت.