شاعری بھی مِری ان سے منسوب ہے

شیعہ اشعار سے
نظرثانی بتاریخ 14:20، 1 جون 2023ء از E Amini (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («'''شاعری بھی مِری اُن سے منسوب ہے''' پروفیسر سید سبط جعفر زیدی کا معروف مذہبی کلام ہے، جس میں اہل بیت اطہار ؑ اور اُن کے دشمنوں سے منسوب کچھ حقائق کو خوبصورتی سے واضح کیا گیا ہے۔ ==تعارف== یہ کلام ==مکمل کلام== {{شعر}} {{ب|سوز خوانی تو خدمت ہی زہرا ؑ کی...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

شاعری بھی مِری اُن سے منسوب ہے پروفیسر سید سبط جعفر زیدی کا معروف مذہبی کلام ہے، جس میں اہل بیت اطہار ؑ اور اُن کے دشمنوں سے منسوب کچھ حقائق کو خوبصورتی سے واضح کیا گیا ہے۔

تعارف

یہ کلام

مکمل کلام

سوز خوانی تو خدمت ہی زہرا ؑ کی ہے، شاعری بھی مری اُن سے منسوب ہے
خدمتِ خلق، تحریر و تقریر ہو، جو بھی ہے وہ سبھی اُن سے منسوب ہے
ہے غلامی آل نبیؐ کا ثمر ، مجھ کو استاد کہتے ہیں اہلِ نظر
اس میں حیرت ہی کیا! سب کو معلوم ہے، ہر بڑا آدمی اُن سے منسوب ہے
آسیا سائی، ترسیل پیغامِ حق، گاہ گہوارہ جنبانی حسنین ؑ کی
پنجتن کا جو خادم ہے روح الامیںؑ، اس کی ہر نوکری اُن سے منسوب ہے
تین شعبان ہو یا ہو تیرہ رجب، یا وہ ذی الحج کی اٹھارہ چوبیس ہو
یا اِسی طرح کی کوئی تاریخ ہو، اپنی ہر اک خوشی اُن سے منسوب ہے
ہیں جو داؤد حمّادِ ربِّ عُلیٰ، میرا اُن سے تقابل نہیں ہے بجا
جو ہیں ممدوح و محبوب ربِّ عُلیٰ، میر خوش نغمگی اُن سے منسوب ہے
ہوں وہ اثنا عشر، مصطفیٰؐ، سیدہؑ، سب کے سب محمدؐ ہیں مشکل کشا
جو بھی چاہو کسی دَر سے بھی مانگ لو، ساری بارہ دری اُن سے منسوب ہے
اُن کے مستوں ملنگوں کی دیوانگی، غیرتِ آگہی، رشکِ فرزانگی
واعظو ناصحو! اُن کو طعنے نہ دو جن کی دیوانگی اُن سے منسوب ہے
اُن کے دشمن کے دشمن سے ہے دوستی ، اُن کا جو دوست ہے وہ ہے آقا مرا
اپنی کیا دوستی، اپنی کیا دشمنی، دوستی دشمنی اُن سے منسوب ہے
بے حدیث کسا، نعرہ حیدریؑ، کیسا علامہ مولانا اور مولوی
جو کسائی، غدیری و مولائی ہے ، بس وہی مولوی اُن سے منسوب ہے
صبح سے شام تک مجلسیں محفلیں شرق سے غرب تک کوبہ کو چارسو
میری مصروفیت، میری مشغولیت، میری آوارگی اُن سے منسوب ہے
کون کہتا ہے سایہ نہ حضرتؐ کا تھا، بن کے سایہ نبیؐ کا رہے مرتضیٰؑ
مکتب حق میں شاید اسی واسطے، ہر حدیث نبی اُن سے منسوب ہے
فتح مکہ کے بھی بعد مسلم ہوئے، جھوٹی سچی حدیثیں جو گھڑتے رہے
وہ جو سرکارؐ سے ہر طرح دور تھے، ہر کہی اَن کہی اُن سے منسوب ہے
کاظمین و نجف، کربلا ، سامرا، شام و قم، مشہد و مکہ، طیبہ، جِناں
یہ شعائر خدا اور محمدؐ کے ہیں ان میں ہر ایک ہی اُن سے منسوب ہے
مذہب جعفری یعنی دین نبی، ہے تو خاتم سے قائم تلک ایک ہی
پر یہ اعزاز معصومِ ہشتم ؑ کا ہے ، سارا دین نبیؐ ان سے منسوب ہے
قبر ان سے ملاقات کی ہے جگہ ، میں یہی سوچ کر قبر تک آگیا
زندگی بھی عطا میرے مولاؑ کی تھی ، نعمتِ موت بھی اُن سے منسوب ہے
پنجتن سے محبت بزرگوں کو تھی! آپ کا دعویٰ ہم مان بھی لیں اگر
بندہ پرور! مگر اس کا کیا ہے سبب؟ اب بھی ہر خارجی اُن سے منسوب ہے
دیکھ تاریخ خیبر بھی تو واعظا! تہمت شرک و بدعت نہ ہم پر لگا
جن کا ہر نطق ہے تابع وحی رب، نعرہ حیدری اُن سے منسوب ہے
وہ جو ثانی و استاد ابلیس تھے، جن کی شہرت ہے غیظ و غضب اور ضرر
اک بیچاری پولیس ہی پہ کیا منحصر، ہر برائی بڑی اُن سے منسوب ہے
وہ جو عباس ؑ ہیں غازی صف شکن ان کے مداح اللہ اور پنجتن
خدمتِ شاہ دیں میں جو حاضر رہے ، آج تک حاضری اُن سے منسوب ہے
تیرے ممدوح ہیں مالک دوجہاں سبط جعفر وہ ہیں جب ترے قدرداں
کیوں تجھے فکر ہے داد و بیداد کی ، جب تری شاعری اُن سے منسوب ہے[1]

حوالہ جات

  1. زیدی، بستہ: ص374

مآخذ

  • زیدی، پروفیسر سید سبط جعفر، بستہ، کراچی، محفوظ بک ایجنسی، طبع سوم، 1432ھ، 2011ء۔