اے شہرِ علم و عالمِ اسرارِ خشک وتر

شیعہ اشعار سے
نظرثانی بتاریخ 15:23، 12 دسمبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = محسن نقوی | قالب = نعت | وزن = مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن | موضوع = پیغمبر اکرم | مناسبت = | زبان = اردو | تعداد بند = 27 بند | منبع = }} '''اے شہرِ علم و عالمِ اسرارِ خشک وتر:''' حماد اہ...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
اے شہرِ علم و عالمِ اسرارِ خشک وتر
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبنعت
وزنمفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
موضوعپیغمبر اکرم
زباناردو
تعداد بند27 بند


اے شہرِ علم و عالمِ اسرارِ خشک وتر: حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا نعتیہ کلام ہے۔

تعارف

حضور اکرم ؐ کی مدح سرائی میں محسن نقوی کا یہ کلام حسنِ بیان و زبان کی بہت سی خوبیوں کا حامل ہے۔ گویا وہ سرکارِ دوعالم کے متعلق زمان و مکاں کی بہت ساری حقیقتوں اور سچائیوں کو تغزلانہ رنگ دے کر سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔

مکمل کلام

اے شہرِ علم و عالمِ اسرارِ خشک وترتو بادشاہِ دیں ہے، تو سلطانِ بحر وبر
ادراک و آگہی کی ضمانت ترا کرم!اِیقان و اِعتقاد کا حاصل تری نظر
تیرے حروف نطقِ الٰہی کا معجزہ!تیری حدیث سچ سے زیادہ ہے معتبر
قرآں تِری کتاب، شریعت تِرا لباستیری زرہ نماز ہے، روزہ تِری سپر
یہ کہکشاں ہے تیرے محلے کا راستہ!تاروں کی روشنی ہے تری خاکِ رہگذر
میری نظر میں خُلد سے بڑھ کر تِری گلیرفعت میں مثل عرشِ بریں تیرے بام و در
جبریل تیرے در کے نگہباں کا ہم مزاجباقی ملائکہ تِری گلیوں کے کوزہ گر
محفوظ جس میں ہو تیرے نقشِ قدم کا عکسکیوں آسماں کا سر نہ جھکے ایسی خاک پر؟
کیا شے ہے برق، تابشِ جستِ بُراق ہےمعراج کیا ہے، صرف تِری سرحدِ سفر
موجِ صبا کو ہے تِری خوشبو کی جُستجوجیسے کسی کے در کی بھکارن ہو در بدر
قامت تِرا ہے روزِ قیامت کا آسراخورشیدِ حشر، ایک نگیں تیرے تاج پر
ہر رات تیرے گیسوئے عنبر فشاں کی یادتیرے لبوں کی آئینہ بردار ہے سحر!
آیات تیرے حُسنِ خدو خال کی مثالواللیل تیری زُلف ہے رُخسار والقمر
وَالعصر زاویہ ہے تِری چشمِ ناز کاوَالشّمس تیری گرمئ انفاس کا شرر
یٰسین تیرے نام پہ الہام کا غلافطٰہٰ تِرا لقب ہے، شفاعت تِرا ہُنر
کُہسار پاش پاش ہیں اَبرو کی ضرب سےدولخت چاند ہے تِرے ناخن کی نوک پر
دریا تِرے کرم کی طلب میں ہیں جاں بہ لبصحرا تِرے خرام کی خاطر کماں بہ سر!
تیرا مزاج بخششِ پیہم کی سلسبیلتیری عطا خزانۂ رحمت ہے سَر بہ سَر
تیرے فقیر اب بھی سلاطینِ کج کلاہتیرے غلام اب بھی زمانے کے چارہ گر
یہ بھی نہیں کہ میرا مرض لاعلاج ہو!یہ بھی نہیں کہ تجھ کو نہیں ہے مِری خبر!!
ہاں پھر سے ایک جنبشِ اَبرو کی بھیک دےہاں پھر سے اِک نگاہِ کرم میرے حال پر
سایہ عطا ہو گنبدِ خضریٰ کا ایک بارجھلسا نہ دے غموں کی کڑی دُھوپ کا سفر
تیرے سوا کوئی بھی نہیں ہے جہاں پناہ!ہو جس کانام باعثِ تسکیں پئے جگر
محسؔن کہ تیری راہگذر کا فقیر ہے!اُس پر کرم دیارِ نبوّت کے تاجور
دے رِزقِ نطق مجھ کو بنامِ علی ؑ ولییا بہرِ فاطمہؑ وہ تِرا پارۂ جگر
حسنین ؑ کے طفیل عطا کر مجھے بہشتمیری دُعا کے رُخ پہ چھڑک شبنمِ اَثر
تیرے سِوا دُعا کے لیے کس کا نام لوں؟"بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، فراتِ فکر: ص 24

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.