خطیب نوک سناں
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | محسن نقوی |
قالب | مسدس |
وزن | مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن |
موضوع | امام حسین ؑ |
زبان | اردو |
تعداد بند | 7 بند |
خطیب نوک سناں: سید الشہداء حضرت امام حسین ؑ کی شان میں معروف شاعر حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا کلام ہے۔
تعارف
اس مسدس کے صرف سات بند ہیں۔ عام طور پر شعراء طویل مضامین باندھنے کے مسدس کا پیرایہ انتخاب کرتے ہیں، امام حسین ؑ کے موضوع پر محسن نقوی جیسے بسیار گو شاعر کا یہ مسدس انتہائی مختصر دکھائی دیتا ہے اور عنوان "خطیبِ نوکِ سناں" کو بھی کسی شعر میں نہیں لایا گیا ہے؛اس لیے کلام میں کسی حد تک تشنگی محسوس کی جا سکتی ہے۔
مکمل کلام
شبیرؑ !کربلا کی حکومت کا تاجدار | وَحدت مِزاج ، دوش نبوت کا شہسوار | |
ہے جس کی ٹھوکروں میں خُدائی کا اِقتَدار | جس کے گداگروں سے ہَراساں ہے روزگار | |
جس نے زَمیں کو عَرش مُقَدر بنا دیا | ||
ذَروں کو آفتاب کا مِحوَر بنا دیا | ||
وہ جس کی بندگی میں سمٹتی ہے دَاوری | کھولے دِلوں پہ جس نے رمُوزِ دِلاوری | |
لُٹ کر بھی کی ہے جس نے شَرِیَعت کی یَاوری | جس نے سَمندروں کو سکھائی شنَاوری | |
وہ جس کا غم ہے اَبر کی صُورت تَنا ہوا | ||
صحرا ہے رَشکِ موجہ کوثر بنا ہوا | ||
جس کی خزاں بَہارِ گُلستَان سے کم نہیں | جس کی جَبیں لَطافتِ قُرآن سے کم نہیں | |
جس کا اصُول حِکمتِ یَزداں سے کم نہیں | جس کی زَمین، خُلد کے ایواں سے کم نہیں | |
وہ جس کی پیاس مَنزلِ آبِ حیات ہے | ||
وہ جس کا ذِکر آج بھی وَجہ نَجات ہے | ||
وہ کہکشاں جبیں، وہ ذَبِیحِ فلک مَقام | جس نے جبینِ عَرش پہ لکھا بَشر کا نام | |
جس نے کیا ضمیرِ بقا میں سدا قیام | جس کی عنایتوں کو سخاوت کرے سلام | |
نوکِ سِناں کو رُتبَہ مِعرَاج بَخش دے | ||
ذَروں کو جو فَلک کا حَسیں تَاج بَخش دے | ||
کَنکر کو دُر بنائے کہاں کوئی جَوہری | ایجاد کی حسینؑ نے یہ کیمیا گری | |
بَخشی ہے یُوں بَشر کو مَلائک پہ بَرتَری | بچوں کو ایک پَل میں بناتا گیا جری! | |
وہ جس نے شَک کو حق کا قَرینہ سکھا دیا | ||
جس نے بَشر کو مَر کے بھی جِینا سکھا دیا | ||
جو میرِ کَاروانِ مودت ہے وہ حسینؑ | جو رَازدارِ کِنزِ حَقیقت ہے وہ حسینؑ | |
جو مرکزِ نگاہِ مَشِیت ہے وہ حسینؑ | جو تَاجدَارِ مُلکِ شَریعت ہے وہ حسینؑ | |
وہ جس کا عَزم آپ ہی اپنی مِثَال ہے | ||
جس کی ”نہیں“ کو ہاں میں بَدلنا مُحَال ہے | ||
مولا! تو جِی رَہا ہے عَجَب اِہتمَام سے | سمجھے ہیں ہم خُدا کو بھی تیرے کَلام سے | |
کِرنِیں وہ پُھوٹتی ہیں سدا تیرے نام سے | کرتے ہیں تیرا ذِکر سبھی اِحترام سے | |
پایا ہے وہ مَقام اَبد تیرے نام نے | ||
آیا نہ پھر یزید کوئی تیرے سامنے[1] |
حوالہ جات
- ↑ محسن نقوی، موجِ ادراک: ص121
مآخذ
- محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.