زباں پر مدح ہے باغِ علی کے نونہالوں کی
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر انیس |
قالب | سلام |
وزن | مفاعیل مفاعیل مفاعیل مفاعیل |
زبان | اردو |
تعداد بند | 28 بند |
زباں پر مدح ہے باغِ علی کے نونہالوں کی: جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔
تعارف
اس سلام میں حضرت علی اکبرؑ، جناب عون و محمد اور شاہِ کربلا کے جانثار اصحاب کی مدح سرائی کے ساتھ مختلف اوقات جیسے ورودِ کربلا، سفر شام و کوفہ اور زندانِ شام وغیرہ کے مصائب کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
مکمل کلام
زباں پر مدح ہے باغِ علی کے نونہالوں کی | گلستاں سے ہیں رنگیں مجلسیں نازک خیالوں کی | |
وہ پہلو اور پیکانِ سہ پہلو، کیا قیامت ہے | وہ سینہ شہ کا اور نوکیں ستمگاروں کے بھالوں کی | |
کمر کس کر علی اکبر نے جب سر پر رکھا شملہ | بلائیں لے لیں اٹھ کر ماں نے گھونگر والے بالوں کی | |
جوانانِ حسینی نے صفیں توڑیں، پرے اُلٹے | نہ بھولے گی لڑائی تا قیامت، مرنے والوں کی | |
قلم بھی رہ گیا ہر بار نقطہ دے کے ناخن پر | نہ سوجھی جب کوئی تشبیہ روئے شہ کے خالوں کی | |
علی اکبر کے ابرو دیکھتا تھا جو، وہ کہتا تھا | یہ تصویریں ہیں دونوں چاند کے پیچھے ہلالوں کی | |
"بحمد اللہ!" عابد کہتے تھے جب پوچھتیں زینب | "پھپھی قربان اب کیا شکل ہے تلووں کے چھالوں کی" | |
معاذاللہ! رعبِ دلبرانِ حضرتِ زینب | علی کا رعب، چتون شیر کی، آنکھیں غزالوں کی | |
جھکے تھے سر، عرق چہروں پہ تھا اور بند تھیں آنکھیں | پڑی تھیں چادریں سیدانیوں کے منہ پہ بالوں کی | |
جھکا تھا پشت پر ایک اک کی، سر ایک ایک بی بی کا | یہ نقشہ قیدیوں کا تھا، یہ صورت پردے والوں کی | |
اٹھائے یہ سکینہ نے جفائے شمر کے صدمے | کہ رنگت ہو گئی تھی سوسنی، اُن گُل سے گالوں کی | |
ہوا اک حشر، جب زینب نے پوچھا آ کے مقتل میں | کہاں قبریں بنی ہیں، میرے دونوں مرنے والوں کی | |
عزا دار، اِس طرف سب تعزیے شہ کے اٹھاتے ہیں | اُدھر نقلیں لکھی جاتی ہیں جنت کے قبالوں کی | |
جو پوچھا حالِ انصار آ کے زعفر نے شہِ دیں سے[1] | کہا شہ نے حقیقت کچھ نہ پوچھو مرنے والوں کی | |
جری [2]ایسے نہ ہوں گے باغِ عالم میں کبھی پیدا | زباں سے کیا بیاں تعریف ہو یوسف جمالوں کی | |
غمِ اصغر میں، بانو کہتی تھیں، مرتی ہوں اے بیٹا | سُنگھاؤ اٹھ کے خوشبو اپنے گھونگھر والے بالوں کی | |
رفیقانِ حسین ابنِ علی کیا کیا بہادر تھے | سناں کھائی ہر اک نے چاند سے سینے پہ بھالوں کی [3] | |
جب آتا ذکر بیٹوں کا، تو زینب سب سے کہتی تھیں | خدا بخشے ابھی کیا عمر تھی اُن مرنے والوں کی | |
[4] جگہ جب مول لی شہ نے، تو ہاتف نے کہا رو کر | یہیں بستی بسے گی، فاطمہ کے نونہالوں کی | |
پڑے تھے خاک پر اہلِ حرم، تکیہ نہ بستر تھا | ہوئی تھی شکل زنداں میں یہ اُن یوسف جمالوں کی | |
کہا زینب سے بیٹوں نے اجازت آپ تو دیجے | سِنانیں شوق سے ہم کھائیں گے سینوں پہ بھالوں کی | |
بوقتِ جوشِ گریہ فاطمہ کہتی تھیں محبّوں سے | جگہ آنکھوں میں اور دل میں ہے اِن سب رونے والوں کی | |
جب آئے غیض میں عباس فوجِ شام کے آگے | صفیں ہٹ ہٹ گئیں میدان سے جنگی رسالوں کی | |
گرے جب شاہ گھوڑے سے، ندا ہاتف کی یہ آئی | جگہ جھاڑی ہوئی ہے، فاطمہ زہرا کے بالوں کی | |
کبھی مقتل، کبھی کوفہ، کبھی صحرا، کبھی زنداں | حقیقت کچھ نہ پوچھو فاطمہ کبریٰ کے چالوں کی | |
جب آئی لوٹنے کو فوج خیمے میں ہوا محشر | صدا پہنچی فلک پر فاطمہ زہرا کے نالوں کی | |
چمکتی برق کی صورت تھی ہر شمشیر میداں میں | برستے سر تھے ہر جا پر گھٹا چھائی تھی ڈھالوں کی | |
انیس اب تو ہلال و بدر کو یکساں سمجھتے ہیں[5] | رہی ہے منصفوں میں قدر یہ صاحب کمالوں کی[6] |
حوالہ جات
- ↑ مجموعہ مرثیہ وسلام ہائے میر انیس: مطبع دبدبۂ احمدی لکھنؤ ، محرم 1319ھ میں اس مصرعے کو "جو پوچھا حال انصاروں کا، آکر زعفرِ جن نے" لکھا ہوا ہے۔
- ↑ سلام ہائے انیس: نسخۂ مملوکہ مہاراجکمار صاحب محمود آباد(قلمی) میں "جری" کی جگہ "حَسیں" لکھا گیا ہے۔
- ↑ یہ بند سلام ہائے انیس: نسخۂ مملوکہ مہاراجکمار صاحب محمود آباد(قلمی) میں نہیں ہے۔
- ↑ یہاں سے بالترتیب چھ بند مجموعہ مرثیہ وسلام ہائے میر انیس: مطبع دبدبۂ احمدی لکھنؤ ، محرم 1319ھ میں شامل نہیں۔
- ↑ مجموعہ مرثیہ وسلام ہائے میر انیس: مطبع دبدبۂ احمدی لکھنؤ ، محرم 1319ھ کے مطابق یہ مصرع کچھ یوں ہے: "انیؔس اب تو ہلال و بدر کا ہے مرتبہ یکساں"
- ↑ زیدی، انیؔس کے سلام: ص133
مآخذ
- زیدی، علی جواد، انیؔس کے سلام، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، طبع اول، 1981ء.