جز پنجتن کسی سے تولّا نہ چاہیے
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر انیس |
قالب | سلام |
وزن | مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن |
موضوع | مصائب کربلا اور موعظہ |
زبان | اردو |
تعداد بند | 29 بند |
جز پنجتن کسی سے تولّا نہ چاہیے: جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔
تعارف
انیس کے سلاموں کا ایک خاصہ مصائب کے ساتھ ساتھ سامع کو وعظ و نصیحت کرنا ہے۔ پیش نظر سلام میں بھی انہوں نے راہِ حق میں ثابت قدمی دکھانے کی کی ضرورت، دنیا کی محبت سے دوری اور خاموشی کے فوائد جیسے نکات کو اپنے شعروں کے ذریعے سماعتوں کی نذر کیا ہے۔
مکمل کلام
جز پنجتن کسی سے تولّا نہ چاہیے | غیر از خدا کسی کا بھروسا نہ چاہیے[1] | |
خادم امیدوارِ حضوری ہے یا حسیؔن ؑ | چاہیں اگر حضور، تو کیا پھر کیا نہ چاہیے | |
اِک در پہ بیٹھ کر ہے توکل کریم پر | اللہ کے فقیر کو پھیرا نہ چاہیے | |
تکرار کیا ہے، زندگیِ مستعار میں | اے موت بار بار تقاضا نہ چاہیے | |
راحت خدا نے دی تو کیا تُو نے شکر کب؟ | ایذا بھی چار دن ہو تو شکوا نہ چاہیے | |
ہر اک کے واسطے ہے ترقی بقدرِ حال | اَسفل کو فکرِ منصبِ اعلیٰ نہ چاہیے | |
ہر کوہ پر نہ ہوگی تجلی مثالِ طور! | ہر ہاتھ کے لیے یدِ بیضا نہ چاہیے | |
کھانے کو رزق، رہنے کو گھر اور لحد کو جا | دنیا میں ایک جان کو کیا کیا نہ چاہیے | |
کہتے تھے شاہ ، پیاس میں لذت ہی اور ہے | دریا کو آنکھ اٹھا کے بھی دیکھا نہ چاہیے | |
یارب! گناہ گار ہوں، خاطی ہوں، رحم کر | مختار سے غلام کو پردانہ چاہیے | |
صغرا نے شاہِ دیں کو لکھا"خط تو بھیجیے" | گر چاہتے نہیں ہمیں، اچھا نہ چاہیے | |
دو بیٹیاں تو پاس ہوں، اک جاں بہ لب بعید | میں سچ کہوں، یہ آپ کو بابا، نہ چاہیے | |
فرقت رہی تو کون سی ہے زندگی کی شکل | بیمار پر عتاب، مسیحا نہ چاہیے | |
کپڑے سفید پہنے جو قاسم نے، بولی ماں | "اتنی بھی سادگی، نئے دولہا نہ چاہیے" | |
دولہا نے عرض کی کہ "اجل ہے گلے کا ہار" | چہرے پہ مرنے والوں کے سہرا نہ چاہیے | |
پانی کا ذکر کرتی سکینہ تو کہتے شاہ | بی بی محال شے کی تمنا نہ چاہیے | |
کہتا تھا شمر، چادریں رانڈوں کی چھین لو | ایسے گناہگاروں کو پردا نہ چاہیے | |
حیرت اسی کی ہے کہ جیے کیسے اتنے دن | گر موت آگئی تو اچھنبا نہ چاہیے[2] | |
ثابت قدم رہے، رہِ حق میں مثال شمع | گردن سے سر جدا ہو، تو پروا نہ چاہیے | |
ہم عازمِ سفر میں بتاؤ مسافرو! | کیا اس سفر میں چاہیے اور کیا نہ چاہیے | |
عباس گِرد پھرتے تو کہتے یہ شاہِ دیں | تکلیف اتنی اے مرے شیدا نہ چاہیے[3] | |
کہتے تھے شاہ ، زہرِ کُشندہ ہے اس کی چاہ | مؤمن کو حُبِّ دولتِ دنیا نہ چاہیے | |
اپنی زباں سے پوچھ خموشی کی لذتیں | جاہل سے اعتراض پہ جھگڑا نہ چاہیے | |
ردّ و بدل سے ہوتے ہیں سو طرح کے فساد | بہتر تو ہے یہ بات کہ بولا نہ چاہیے | |
وقتِ ضرور، حکمِ تکلم بھی ہے مگر | یوں چاہیے کلام ، کہ گویا نہ چاہیے | |
کہتی تھی فضّہ شام میں بازاریو ،ہٹو! | زہرا ؑ کی بیٹیوں کا تماشا نہ چاہیے | |
یہ کون بیبیاں ہیں تمہیں کچھ نہیں خبر | آلِ رسول پر ستم ایسا نہ چاہیے | |
آزار تو نہ دو، جو حمایت نہ ہو سکے | کیوں کلمہ گویو، چاہیے یہ، یا نہ چاہیے | |
مرقد چراغِ داغ سے روشن رہے انیس | شب کو اکیلے گھر میں اندھیرا نہ چاہیے[4] |
حوالہ جات
- ↑ اس کلام کے کچھ شعر "سلام ہائے انیس: نسخۂ مملوکہ مہاراجکمار صاحب محمودآباد (قلمی)" میں بطور قطعہ درج ہے، لیکن "مراثی انیس: مطبوعہ نول کشور پریس لکھنؤ" میں نہیں۔ مؤخر الذکر مرجح ہے۔
- ↑ یہاں سے علی الترتیب تین اشعار"مراثی انیس: مطبوعہ نول کشور پریس لکھنؤ" میں شامل نہیں
- ↑ یہاں سے علی الترتیب چار اشعار"مراثی انیس: مطبوعہ نول کشور پریس لکھنؤ" میں شامل نہیں
- ↑ زیدی، انیؔس کے سلام: ص125
مآخذ
- زیدی، علی جواد، انیؔس کے سلام، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، طبع اول، 1981ء.