جز پنجتن کسی سے تولّا نہ چاہیے

شیعہ اشعار سے
نظرثانی بتاریخ 21:56، 18 نومبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = میر انیس | قالب = سلام | وزن = مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن | موضوع = مصائب کربلا اور موعظہ | مناسبت = | زبان = اردو | تعداد بند = 29 بند | منبع = }} '''جز پنجتن کسی سے تولّا نہ چاہیے:''' جنا...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
جز پنجتن کسی سے تولّا نہ چاہیے
معلومات
شاعر کا ناممیر انیس
قالبسلام
وزنمفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
موضوعمصائب کربلا اور موعظہ
زباناردو
تعداد بند29 بند


جز پنجتن کسی سے تولّا نہ چاہیے: جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔

تعارف

انیس کے سلاموں کا ایک خاصہ مصائب کے ساتھ ساتھ سامع کو وعظ و نصیحت کرنا ہے۔ پیش نظر سلام میں بھی انہوں نے راہِ حق میں ثابت قدمی دکھانے کی کی ضرورت، دنیا کی محبت سے دوری اور خاموشی کے فوائد جیسے نکات کو اپنے شعروں کے ذریعے سماعتوں کی نذر کیا ہے۔

مکمل کلام

"

مرقد چراغِ داغ سے روشن رہے انیس|شب کو اکیلے گھر میں اندھیرا نہ چاہیے[4]

جز پنجتن کسی سے تولّا نہ چاہیےغیر از خدا کسی کا بھروسا نہ چاہیے[1]
خادم امیدوارِ حضوری ہے یا حسیؔن ؑ چاہیں اگر حضور، تو کیا پھر کیا نہ چاہیے
اِک در پہ بیٹھ کر ہے توکل کریم پراللہ کے فقیر کو پھیرا نہ چاہیے
تکرار کیا ہے، زندگیِ مستعار میںاے موت بار بار تقاضا نہ چاہیے
راحت خدا نے دی تو کیا تُو نے شکر کب؟ایذا بھی چار دن ہو تو شکوا نہ چاہیے
ہر اک کے واسطے ہے ترقی بقدرِ حالاَسفل کو فکرِ منصبِ اعلیٰ نہ چاہیے
ہر کوہ پر نہ ہوگی تجلی مثالِ طور!ہر ہاتھ کے لیے یدِ بیضا نہ چاہیے
کھانے کو رزق، رہنے کو گھر اور لحد کو جادنیا میں ایک جان کو کیا کیا نہ چاہیے
کہتے تھے شاہ ، پیاس میں لذت ہی اور ہےدریا کو آنکھ اٹھا کے بھی دیکھا نہ چاہیے
یارب! گناہ گار ہوں، خاطی ہوں، رحم کرمختار سے غلام کو پردانہ چاہیے
صغرا نے شاہِ دیں کو لکھا"خط تو بھیجیے"گر چاہتے نہیں ہمیں، اچھا نہ چاہیے
دو بیٹیاں تو پاس ہوں، اک جاں بہ لب بعیدمیں سچ کہوں، یہ آپ کو بابا، نہ چاہیے
فرقت رہی تو کون سی ہے زندگی کی شکلبیمار پر عتاب، مسیحا نہ چاہیے
کپڑے سفید پہنے جو قاسم نے، بولی ماں"اتنی بھی سادگی، نئے دولہا نہ چاہیے
دولہا نے عرض کی کہ "اجل ہے گلے کا ہار"چہرے پہ مرنے والوں کے سہرا نہ چاہیے
پانی کا ذکر کرتی سکینہ تو کہتے شاہبی بی محال شے کی تمنا نہ چاہیے
کہتا تھا شمر، چادریں رانڈوں کی چھین لوایسے گناہگاروں کو پردا نہ چاہیے
حیرت اسی کی ہے کہ جیے کیسے اتنے دنگر موت آگئی تو اچھنبا نہ چاہیے[2]
ثابت قدم رہے، رہِ حق میں مثال شمعگردن سے سر جدا ہو، تو پروا نہ چاہیے
ہم عازمِ سفر میں بتاؤ مسافرو!کیا اس سفر میں چاہیے اور کیا نہ چاہیے
عباس گِرد پھرتے تو کہتے یہ شاہِ دیںتکلیف اتنی اے مرے شیدا نہ چاہیے[3]
کہتے تھے شاہ ، زہرِ کُشندہ ہے اس کی چاہمؤمن کو حُبِّ دولتِ دنیا نہ چاہیے
اپنی زباں سے پوچھ خموشی کی لذتیںجاہل سے اعتراض پہ جھگڑا نہ چاہیے
ردّ و بدل سے ہوتے ہیں سو طرح کے فسادبہتر تو ہے یہ بات کہ بولا نہ چاہیے
وقتِ ضرور، حکمِ تکلم بھی ہے مگریوں چاہیے کلام ، کہ گویا نہ چاہیے
کہتی تھی فضّہ شام میں بازاریو ،ہٹو!زہرا ؑ کی بیٹیوں کا تماشا نہ چاہیے
یہ کون بیبیاں ہیں تمہیں کچھ نہیں خبرآلِ رسول پر ستم ایسا نہ چاہیے
آزار تو نہ دو، جو حمایت نہ ہو سکےکیوں کلمہ گویو، چاہیے یہ، یا نہ چاہیے

حوالہ جات

  1. اس کلام کے کچھ شعر "سلام ہائے انیس: نسخۂ مملوکہ مہاراجکمار صاحب محمودآباد (قلمی)" میں بطور قطعہ درج ہے، لیکن "مراثی انیس: مطبوعہ نول کشور پریس لکھنؤ" میں نہیں۔ مؤخر الذکر مرجح ہے۔
  2. یہاں سے علی الترتیب تین اشعار"مراثی انیس: مطبوعہ نول کشور پریس لکھنؤ" میں شامل نہیں
  3. یہاں سے علی الترتیب چار اشعار"مراثی انیس: مطبوعہ نول کشور پریس لکھنؤ" میں شامل نہیں
  4. زیدی، انیؔس کے سلام: ص125

مآخذ

  • زیدی، علی جواد، انیؔس کے سلام، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، طبع اول، 1981ء.