آ کے جو بزمِ عزا میں رو گئے

شیعہ اشعار سے
نظرثانی بتاریخ 21:40، 18 نومبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = میر انیس | قالب = سلام | وزن = فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن | موضوع = مصائب کربلا | مناسبت = | زبان = اردو | تعداد بند = 13 بند | منبع = }} '''آ کے جو بزمِ عزا میں رو گئے:''' خدائے سخن جناب می...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
آ کے جو بزمِ عزا میں رو گئے
معلومات
شاعر کا ناممیر انیس
قالبسلام
وزنفاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
موضوعمصائب کربلا
زباناردو
تعداد بند13 بند


آ کے جو بزمِ عزا میں رو گئے: خدائے سخن جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔

تعارف

اس سلام میں اشکِ عزا کی اہمیت، حضرت علی اصغر ؑ کی مظلومیت اور جناب عابد بیمار ؑ کی غربت کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔

مکمل کلام

آ کے جو بزمِ عزا میں رو گئےمجرئی! وہ فردِ عصیاں دھو گئے
یاد آیا دامنِ مادر کا چین!پاؤں پھیلا کر لحد میں سو گئے
اشک کیا نکلیں کڑے احوال پرسنتے سنتے قلب پتھر ہو گئے
موت آئی ہے محبّو، "الفراق"آج سب وعدے برابر ہو گئے
ہاتھ سے جاتا رہا نقدِ حیاتجان لے کر آئے، بے جاں ہو گئے
عالمِ فانی میں ہم کو کیا[1] ملااور کچھ اپنی گرہ سے کھو گئے
راحت آبادِ عدم ہے خوب جاپھر نہ آئے وہ، جہاں سے جو گئے
ہتھکڑی اور بیڑیوں کو دیکھ کردست و پا عابد کے ٹھنڈے ہو گئے
چھد گیا مثلِ گہر ناوک سے حلقلعل سی جاں اپنی اصغر ؑ کھو گئے
خون گردن سے جو نکلا گرم گرمبھر کے آہِ سرد ٹھنڈے ہو گئے
آ کے تربت پر[2] پکارے شاہِ دیںہائے آج اصغر ؑاکیلے ہو گئے
احمد و زہرا و حیدر اور حسنآ کے سب لاشے پہ حُر کے رو گئے[3]
عالمِ پیری میں یہ غفلت انیسرات بھر جاگے، سحر کو سو گئے[4]

حوالہ جات

  1. مراثی انیؔس: مطبوعہ نول کشور پریس لکھنؤ میں "کیا تم کو" درج ہے۔
  2. رکھ کے تربت میں
  3. مراثی انیؔس: مطبوعہ نول کشور پریس لکھنؤ میں یہ شعر شامل نہیں۔ انیؔس سے اس کی نسبت مشکوک ہے۔
  4. زیدی، انیؔس کے سلام: ص124

مآخذ

  • زیدی، علی جواد، انیؔس کے سلام، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، طبع اول، 1981ء.