حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری

شیعہ اشعار سے
نظرثانی بتاریخ 21:31، 18 نومبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = میر تقی میر | قالب = مخمس ترجیع بند | وزن = فاعلاتن فاعلاتن فاعِلن | موضوع = حضرت علی ؑ | مناسبت = | زبان = اردو | تعداد بند = 15 بند | منبع = }} '''حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری:''' اردو کے نا...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
معلومات
شاعر کا ناممیر تقی میر
قالبمخمس ترجیع بند
وزنفاعلاتن فاعلاتن فاعِلن
موضوعحضرت علی ؑ
زباناردو
تعداد بند15 بند


حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری: اردو کے نامور شاعر میر تقی میر دہلوی کی لکھی ہوئی منقبت ہے۔

تعارف

اگرچہ عموما شعراء حضرات اپنے حریفوں پر برتری ظاہر کرنے کے لیے "شاعرانہ تعلّی" کا اظہار کرتے ہیں، لیکن جناب میر تقی میر کی شاعرانہ تعلیوں کی مثال دی جاتی ہے جن میں سے کچھ حضرت علی ؑ کی شان میں لکھی گئی اس ترجیع بند میں آپ بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

مکمل کلام

قدر کو میری بہت ہے برتری
کب مری خورشید سے ہو ہمسری
حکمِ بز رکھے ہے یاں شیرِ نری
کر مخالف سوچ کر ٹک اژدری
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
منقبت خوانی سے میری سب ہیں سن
اس سوا مجھ میں نہیں ہے کوئی گُن
ساتھ سر کے ہے علی گوئی کی دھن
مدعی اِس کان یا اُس کان سن
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
شوقِ کامل سے تعجب ہے یہ کیا
جو بدن ہو خاک سب بعد فنا
اور اُس سے نے اُگے سبزے کی جا
برگ برگ اُس کا کرے پھر یہ صدا
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
تھا کبھو عاقل مخبط تھا کبھو
گاہ کرتا گفتگو گہ جستجو
اب اخیر عمر ہے یہ آرزو
ایک دو دن ترک کر میں اور تو
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
کل منافق ہوکے آیا بہبہا
پھاڑے اپنے منھ کو جیسے اژدہا
غار سا منھ کھولے بھیچک ہو رہا
معرکے میں میں نے جو آکر کہا
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
دل میں میرے ہے تمنائے کہن
ہو میسر اے خدائے ذوالمنن
جس گھڑی ہوویں جدا جان اور تن
ہو مِرے ہونٹھوں کے اوپر یہ سخن
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
ہے ولاے اہل بیت اپنا شعار
جانے ہے اِس کے تئیں سارا دیار
زیر لب کہتا ہوں میں پر اب کی بار
تو سنے جو میں کہوں سب میں پکار
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
رختِ ہستی جائے رستم بار کر
ماروں اک مکی اگر تیار کر
چپ رہیں موذی دلوں کو مار کر
روزِ میداں گر کہوں للکار کر
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
اے مخالف بحث مت کر نابکار
بات ایسی سے ہے مجھ کو ننگ و عار
بس کہا اس آستاں کا ہوں غبار
کیا کہا تجھ سے کروں میں بار بار
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
شیخ کو نسبت نہیں تجرید سے
ہے یہ خر جکڑا ہوا تقئید سے
یہ عقائد ہوتے ہیں تائید سے
گو کہا ان نے مری تقلید سے
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
اس عقیدے ہی پہ اپنے میں رہوں
گو خوارج کے ستم اس میں سہوں
بے ولا حیدر کے ہوں میں تو نہ ہوں
لب ہلیں جب تک یہی تب تک کہوں
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
اب ہوا پیری سے ٹک میں مضمحل
ورنہ تھا یہ شور تا چین و چگل
شوق میرا کچھ نہ تھا بے صدق دل
رات دن رہتا تھا کہتا متصل
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
اے مرے سرمایۂ ہر دو جہاں
عشق تیرا ہے مرے ہمراہ جاں
ہو اگر تن پر مرے ہر مو زباں
بے گماں سرزد ہو اس سے ہر زماں
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری
ہوں اگر یار و گدا و شاہ میں
پر ہوں سر کار سے آگاہ میں
دل وہیں ہے گو چلوں سو راہ میں
میرؔ جی باور کرو واللہ میں
حیدری ہوں حیدری ہوں حیدری[1]

حوالہ جات

  1. میر تقی میر، کلیات میر:ص745

مآخذ

  • میر تقی میر، کلیات میر، مطبع نامی منشی نو، لکھنؤ، 1941ء.