جز غم آل عبا ہم اور غم رکھتے نہیں

شیعہ اشعار سے
نظرثانی بتاریخ 06:37، 14 نومبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
جز غم آل عبا ہم اور غم رکھتے نہیں
معلومات
شاعر کا ناممیر انیس
قالبسلام
وزنفاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
موضوعمحبان اہل بیت ؑ کی عظمت
زباناردو
تعداد بند14 بند


جز غم آل عبا ہم اور غم رکھتے نہیں : فردوسی ہند جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔

تعارف

پیش نظر سلام میں "میر انیس" نے محبانِ اہل بیت ؑ کی عظمت اور دنیا جہاں سے ان کی بے نیازی کو مختلف شعروں میں بڑے خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے، یہاں تک لکھتے ہیں کہ کربلائے معلّیٰ کی زیارت نصیب ہونے کے بعد زائر والا مقام کی نظروں میں دنیا کی تو خیر کوئی وقعت ہی نہیں ہوتی، بلکہ وہ بڑی شانِ بے نیازی سے باغِ ارم کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔

مکمل کلام

رنجِ دُنیا سے کبھی چشم اپنی نم رکھتے نہیںجُز غمِ آلِ عبا ہم اور غم رکھتے نہیں
کربلا پُہنچے، زیارت کی، ہمیں پروا ہے کیا؟اب ارم بھی ہاتھ آئے تو قدم رکھتے نہیں
در پہ شاہوں کے نہیں جاتے فقیر اللہ کےسر جہاں رکھتے ہیں سب، ہم واں قدم رکھتے نہیں
دیکھنا کل ٹھوکریں کھاتے پھریں گے اُن کے سرآج نخوت سے زمین پر جو قدم رکھتے نہیں
کہتے تھے اعدا کہ بچے بھی علی ؑکے شیر ہیںجب بڑھاتے ہیں تو پھر پیچھے قدم رکھتے نہیں
دھو دئیے اشکوں نے دفتر سے تمام اعمالِ زشتہم تری پروا کچھ اے ابرِ کرم رکھتے نہیں
جو سخی ہیں مالِ دنیا سے ہیں خالی ان کے ہاتھاہلِ دولت جو ہیں وہ دستِ کرم رکھتے نہیں
جو مقرر ہے وہ ملتا ہے تِری سرکار سےہم ہیں صابر کچھ خیالِ بیش و کم رکھتے نہیں
زور سے اِس کے لیا ہے ہم نے میدانِ سخناور نیزہ ہاتھ میں غیر از قلم رکھتے نہیں
یہ دوات و خامہ ہے ملکِ فصاحت کا نشاںکون کہتا ہے کہ ہم طبل وعلم رکھتے نہیں
نقدِجاں تک دے کے ہم جاتے ہیں یاں سے وقتِ کوچعاریت جو شے ہو اُس کو پاس ہم رکھتے نہیں
ایک کشکولِ توکل ، ایک نقدِ جاں ہے پاسہیں غنی دل کے کوئی دام و درَم رکھتے نہیں
کہتے تھے سجادؑ کھنچ سکتی نہ تھیں جب بیڑیاںکیا کروں اس بوجھ کی طاقت قدم رکھتے نہیں
مرثیہ اِک دن میں کیا سب کہہ کے اُٹھو گے انیسہاتھ سے کیوں آج قرطاس و قلم رکھتے نہیں[1]

حوالہ جات

  1. رضوی،روح انیس: ص239

مآخذ

  • رضوی، سید مسعود الحسن، روح انیس، الٰہ آباد، انڈین پریس لمیٹڈ، بی تا.