موج ادراک

شیعہ اشعار سے
موج ادراک
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبقطعہ
وزنمفعول مفاعیل مفاعیل فعُولن
موضوعتخلیق کائنات اور رسول اکرم ؐ کی خلقت
زباناردو
تعداد بند86 بند


موج ادراک: حماد اہل بیت سید محسن نقوی کا انتہائی طویل حمدیہ نعتیہ کلام ہے۔

تعارف

قطعات کی ہیئت میں لکھے گئے اس طویل کلام کا بیشتر حصہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور تخلیق کائنات سے پہلے کے ماحول کی منظر کشی پر مشتمل ہے جس سے شاعر کی اوج تخیل اور وسعت مطالعہ و مشاہدہ نمایاں ہوتی ہے۔ پھر تکلم کا دھارا وجہ تخلیق دوعالم کی خلقت کی جانب موڑا گیا ہے اور اس میدان میں بھی اشہبِ تخیل کو خوب مہمیز کیا گیا ہے۔

مکمل کلام

یہ دشت یہ دریا یہ مہکتے ہوئے گلزار
اس عالم امکاں میں ابھی کچھ بھی نہیں تھا
اک "جلوہ" تھا سو گم تھا حجاباتِ عدم میں
اک "عکس" تھا، سو منتظر چشم یقیں تھا
یہ موسم خوشبو یہ گہر تابیِ شبنم
یہ روق ہنگامۂ کونین کہاں تھی؟
گلنار گھٹاؤں سے یہ چھنتی ہوئی چھاؤں
یہ دھوپ، دھنک، دولتِ دارین کہاں تھی؟
یہ نکہتِ احساس کی مقروض ہوائیں
دلدارئ الہام سے مہکے ہوئے لمحات
دوشیزۂ انفاس کی تسبیح کے تیور
کس کنجِ تصور میں تھے مصروف مناجات؟
"شیرازۂ آئینِ قدم" کے سبھی اعراب
بے ربطی اجزائے سوالات میں گم تھے
یہ رنگ یہ نیرنگ یہ اور نگ یہ سب رنگ
اک پردۂ افکار و خیالات میں گم تھے!
یہ پھول یہ کلیاں یہ چٹکتے ہوئے غنچے
بے آب و ہوا، تشنۂ آیات و مناجات
یہ برگ، یہ برکھا، یہ لچکتی ہوئی شاخیں
بیگانہ آدابِ سحر ہے نمِ جذبات
کہسار کے جھرنوں سے پھسلتی ہوئی کرنیں
اک خواب مسلسل کے تحیر میں نہاں تھیں!
چپ چاپ فضاؤں میں مچلتی ہوئی لہریں
ماحول کے بے نطق تصور پہ گراں تھیں
غم خانۂ ظلمت نہ کوئی بزمِ چراغاں
خورشید نہ مہتاب، نہ انجم نہ کواکب
شورش گہ "کن" تھی نہ یہ آوازِ دمادم
تفریق من و تو نہ مساوات و مراتب
ہنگامۂ شادی نہ کوئی مجلسِ ماتم!
یلغارِ حریفاں نہ جلوس غم یاراں
آنکھوں میں کوئی زخم نہ سینے میں کوئی چاک
انبوه رقیباں نہ رخ لالہ عذاراں
افلاس کا احساس نہ پندارِ زر و سیم
بخشش کے تقاضے نہ یہ دریوزہ گری تھی
پتھر کا زمانہ تھا نہ شیشے کے مکاں تھے
یہ عقل کا دستور نہ شوریدہ سری تھی
مقتول کی فریاد نہ آوازۂ قاتل
مقتل تھے نہ شہ رگ میں لہو تھا نہ ہوس تھی
دربار نہ لشکر نہ کوئی عدل کی زنجیر
دل تھا نہ کہیں تیرگئ کنجِ قفس تھی
رہبر تھے نہ منزل تھی نہ رستے ، نہ مسافر!
قندیل نہ جگنو نہ ستارے نہ گہر تھے
یہ اَبیض و اَسود نہ اَب و جد نہ زر و سیم
انساں تھے نہ حیواں، نہ حجر تھے نہ شجر تھے
ہر سمت مسلط تھے تحیر کے طلسمات!
جیسے کسی مدفن میں ہو صدیوں کا کوئی راز
جس طرح کسی اُجڑے ہوئے شہر کے سائے
یا موت کی ہچکی میں پگھلتی ہوئی آواز
جیسے کسی گھر میں صفِ ماتم کی خموشی
یا دشت و بیاباں میں نزولِ شب آفات
جیسے کسی کہسار پہ تنہا کوئی خیمہ!
یا شامِ غریباں کے تصرف میں سمٰوات
ہولے سے سرکنے لگے ہستی کے حجابات
دھیرے سے ڈھلکنے لگا تخلیق کا آنچل
چھن چھن کے بکھرنے لگا "شیرازۂ کُن –کُن"
رِم جھم سے برسنے لگے احساس کے بادل
پلکیں سی جھپکنے لگی دوشیزۂ کونین!
ہلچل سی ہوئی پیکرِ عالم کی رگوں میں
آفاق کے سینے میں دھڑکنے لگیں کرنیں
"شیرازۂ کُن" ڈھل بھی گیا تھا فَیکُوں میں
ہر سمت بکھرنے لگیں وجدان کی کرنیں
کرنوں سے کھلے رنگ تو رنگوں سے گلستاں
بیدار ہوئی خواب سے خوشبوئے رگِ گُل
خوشبو سے مہکنے لگا دامانِ بیاباں
دامانِ بیاباں میں نہاں سینۂ برفاب
برفاب کے سینے میں تلاطم بھی شرر بھی
اعجازِ لبِ کُن سے ہوئے خلق بیک وقت
صحرا بھی، سمندر بھی، کہستاں بھی، شجر بھی
پھر حدتِ تخلیق کی شدت سے پگھل کر
جاگے کئی طوفان ، تہِ سینۂ برفاب
ہر موج تھی پروردۂ آغوشِ تلاطم!
ہر قطرہ کا دل، صورتِ بے خوابئ سیماب
شانوں پہ اٹھائے ہوئے بارِ کفِ سیلاب
بے سمت بھٹکنے لگیں منہ زور ہوائیں
منہ زور ہواؤں کے تھپیڑوں کی دھمک سے
دل بن کے دھڑکنے لگیں بے رنگ فضائیں
بے رنگ فضاؤں کے تحیر کی کسک میں
پنہاں تھے شب و روز سے آلود زمانے
بے اَنت زمانوں کے اُفق تھے نہ حدیں تھیں
آخر دیا ترتیب انہیں دستِ قضا نے
پھر چشمِ تحیّر نے یہ سوچا کہ فضا میں
شادابئ گلزارِ طرب، کس کے لیے ہے؟
یہ کون ہُوا باعثِ تخلیقِ دوعالم!
یہ ارض و سما کیوں ہیں، یہ سب کس کے لیے ہے؟
تزئینِ مہ و انجم ِ افلاک کا باعث
ہے کون؟ جو خلوت کے حجابوں میں چھپا ہے؟
تخلیقِ رگ و ریشۂ کونین کا مقصد!
ہے کیا؟ جو سرِ لوحِ شب و روز لکھا ہے؟
ہے کس کے لیے عشوۂ بلقیسِ تصور
یہ غمزۂ رخسارِ جہاں کس کے لیے ہے؟
آرائش خال و خدِ ہستی کا سبب کون؟
یہ انجمنِ کون و مکاں کس کے لیے ہے؟
پھر ریشمِ انوار کا ملبوس پہن کر
ظاہر ہوا اِک پیکرِ صد رنگ بصد ناز
نکھرے کئی بکھرے ہوئے رنگوں کے مناظر
فطرت کی تجلی ہوئی آمادۂ اعجاز
وہ پیکرِ تقدیس وہ سرمایۂ تخلیق
وہ قبلۂ جاں، مقصدِ تخلیقِ دوعالم
وِجدان کا معیار، مہ و مہر کا محور
وہ قافلہ سالارِ مزاجِ بنی آدم
وہ منزلِ اربابِ نظر، فکر کی تجسیم
وہ کعبۂ تقدیرِ دو عالم، رُخِ احساس
وہ بزمِ شب و روز کا سلطانِ معظم
وہ رونقِ رُخسارۂ فیروزہ و الماس
وہ شعلگئ شمعِ حرم، تابشِ خورشید
وہ آئینۂ حسنِ رُخِ اَرض و سماوات
وہ، جس سے رواں موجِ تبسم کی سبیلیں
وہ جس کے تکلم کی دَھنک چشمۂ آیات
وہ جس کا ثناخوان دلِ فطرت کا تکلُّم!
ہستی کے مناظر، خمِ ابرو کے اشارے
آفاق ہیں دامن کی صباحت پہ تصدق
قدموں کے نشاں ڈھونڈتے پھرتے ہیں ستارے
اُس رحمتِ عالم کا قصیدہ کہوں کیسے؟
جو مہرِ عنایات بھی ہو، ابرِ کرم بھی
کیا اُس کے لیے نذر کروں جس کی ثنا میں
سجدے میں ہوں الفاظ بھی، سطریں بھی قلم بھی!
چہرہ ہے کہ انوارِ دو عالم کا صحیفہ
آنکھیں ہیں کہ بحرینِ تقدس کے نگیں ہیں
ماتھا ہے، کہ وحدت کی تجلی کا ورق ہے
عارض ہیں کہ "والفجر" کی آیت کے اَمیں ہیں
گیسو ہیں کہ "واللیل" کے بکھرے ہوئے سائے
اَبرو ہیں کہ قوسینِ شبِ قدر کھلے ہیں
گردن ہے کہ بر فرقِ زمین اَوجِ ثریا
لب، صورتِ یاقوت شعاعوں میں دُھلے ہیں
قد ہے کہ نبوت کے خدو خال کا معیار
بازو ہیں کہ توحید کی عظمت کے علم ہیں
سینہ ہے کہ رمزِ دلِ ہستی کا خزینہ
پلکیں ہیں کہ الفاظِ رُخِ لوح و قلم ہیں
باتیں کہ طوبیٰ کی چٹکتی ہوئی کلیاں
لہجہ ہے کہ یزداں کی زباں بول رہی ہے
خطبے ہیں کہ ساون کے اُمنڈتے ہوئے دریا
قرأت ہے کہ اسرارِ جہاں کھول رہی ہے
یہ دانت، یہ شیرازۂ شبنم کے تراشے
یاقوت کی وادی میں دمکتے ہوئے ہیرے
شرمندۂ تابِ لب و دندان پیمبر ؐ
حرفے بہ ثناخوانی و خامہ بہ صریرے
یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں کی دھنک ہے
یہ عکسِ متانت ہے کہ ٹھہرا ہوا موسم
یہ شکر کے سجدے ہیں کہ آیات کی تنزیل
یہ آنکھ میں آنسو ہیں کہ الہام کی رِم جھم
یہ ہاتھ یہ کونین کی تقدیر کے اوراق
یہ خط، یہ خدو خالِ رُخِ مصحف و انجیل
یہ پاؤں یہ مہتاب کی کرنوں کے معابد
یہ نقشِ قدم، بوسہ گہِ رَف رَف و جبریل
یہ رفعتِ دستار ہے یا اوجِ تخیّل!
یہ بندِ قبا ہے کہ شگفتِ گُلِ ناہید
یہ سایۂ داماں ہے کہ پھیلا ہوا بادل
یہ صبحِ گریباں ہے کہ خمیازۂ خورشید
یہ دوش پہ چادر ہے کہ بخشش کی گھٹا ہے
یہ مہرِ نبوت ہے کہ نقشِ دل مہتاب
رخسار کی ضو ہے کہ نمو صبحِ ازل کی
آنکھوں کی ملاحت ہے، کہ رُوئے شبِ کم خواب
ہر نقشِ بدن اتنا مناسب ہے کہ جیسے
تزئینِ شب و روز کہ تمثیلِ مہ و سال
ملبوسِ کہن یوں شکن آلود ہے جیسے
ترتیب سے پہلے رُخِ ہستی کے خدو خال
رفتار میں افلاک کی گردش کا تصور
کردار میں شامل بنی ہاشم کی اَنا ہے
گفتار کی قرآں کی صداقت کا تیقّن
معیار میں گردُوں کی بلندی کفِ پا ہے
وہ فکر کہ خود عقل بشر سر بگریباں
وہ فقر کہ ٹھوکر میں ہے دنیا کی بلندی
وہ شکر کہ خالق بھی ترے شکر کا ممنون
وہ حُسن کہ یوسف ؑ بھی کرے آئینہ بندی
وہ علم کہ قرآں تری عترت کا قصیدہ
وہ حِلم کہ دشمن کو بھی امیدِ کرم ہے
وہ صبر کہ شبیر ؑ تِری شاخِ ثمردار
وہ ضبط کہ جس ضبط میں عرفانِ اُمم ہے
"اورنگِ سلیماں" تِری نعلین کا خاکہ
"اعجاز مسیحا" تِری بکھری ہوئی خوشبو
"حُسن یدِ بیضا" تِری دہلیز کی خیرات
کونین کی سج دھن تِری آرائشِ گیسو
سرچشمۂ کوثر تِرے سینے کا پسینہ
سایہ تِری دیوار کا معیارِ اِرَم ہے
ذرّے تِری گلیوں کے مہ و انجمِ افلاک
"سورج" تِرے رہوار کا اِک نقشِ قدم ہے
دنیا کے سلاطیں، تِرے جارُوب کشوں میں
عالم کے سکندر، تِری چوکھٹ کے بھکاری
گردُوں کی بلندی، تِری پاپوش کی پستی
جبریل ؑ کے شہپر تِرے بچوں کی سواری
دھرتی کے ذوِی العدل، تِرے حاشیہ بردار
فردوس کی حوریں، تِری بیٹی کی کنیزیں
کوثر ہو، گلستانِ ارم ہو کہ وہ طوبیٰ
لگتی تِرے شہر کی بکھری ہوئی چیزیں
ظاہر ہو تو ہر برگِ گلِ تَر تِری خوشبو
غائب ہو تو دنیا کو سراپا نہیں ملتا
وہ اِسم، کہ جس اِسم کو لب چوم لیں ہر بار
وہ جسم کہ سورج کو بھی سایہ نہیں ملتا
احساس کے شعلوں میں پگھلتا ہوا سورج
انفاس کی شبنم میں ٹھٹھرتی ہوئی خوشبو
الہام کی بارش میں یہ بھیگے ہوئے الفاظ
اندازِ نگارش میں یہ حُسنِ رمِ آہُو!
حیدر ؑ تِری ہیبت ہے تو حسنین ؑ تِرا حُسن
اصحاب وفادار تو نائب تِرے معصوم
سلمیٰ ؑ تِری عصمت ہے، خدیجہ ؑ تِری توقیر
زہرا ؑ تِری قسمت ہے تو زینب ؑ تِرا مقسوم
کس رنگ سے ترتیب تجھے دیجیے مولا؟
تنویر، کہ تصویر، تصوّر کہ مصوّر؟
کس نام سے امداد طلب کیجیے تجھ سے
یٰسین کہ طٰہٰ کہ مزمّل کہ مدثّر؟
پیدا تِری خاطر ہوئے اطراف دوعالم
کونین کی وسعت کا فسوں تیرے لیے ہے
ہر بحر کی موجوں میں تلاطم تِری خاطر
ہر جھیل کے سینے میں سکوں تیرے لیے ہے
ہر پھول کی خوشبو تِرے دامن سے ہے منسوب
ہر خار میں چاہت کی کھٹک تیرے لیے ہے
ہر دشت و بیاباں کی خموشی میں تِرا راز
ہر شاخ میں زلفوں سی لٹک تیرے لیے ہے
"دِن" تیری صباحت ہے تو شب تیری ملاحت
گُل تیرا تبسم ہے ، ستارے تِرے آنسو
آغازِ بہاراں تِری انگڑائی کی تصویر
دلدارئ باراں تِرے بھیگے ہوئے گیسو
کہسار کے جھرنے، تِرے ماتھے کی شعاعیں
یہ قوسِ قزح، عارضِ رنگیں کی شکن ہے
" یہ کاہکشاں" دُھول ہے نقشِ کفِ پا کی
ثقلین تِرا صدقۂ انوارِبدن ہے
ہر شہر کی رونق تِرے رَستے کی جمی دھول
ہر بَن کی اُداسی، تِری آہٹ کی تھکن ہے
جنگل کی فضا تیری متانت کی علامت
بستی کی پھبن تیرے تبسم کی کرن ہے
میداں تِرے بوذرؔ کی حکومت کے مضافات
کہسار تِرے قنبرؔ و سلماںؔ کے بسیرے
صحراِ تِرے حبشیؔ کی محبت کی مُصلّے!
گلزار تِرے میثمؔ و مقدادؔ کے ڈیرے
کیا ذہن میں آئے کہ تو اُترا تھا کہاں سے؟
کیا کوئی بتائے تِری سرحد ہے کہاں تک؟
پہنچی ہے جہاں پر تِری نعلین کی مٹی
خاکسترِ جبریل بھی پہنچے نہ وہاں تک
سوچیں تو خدائی تِری مرہونِ تصوّر
دیکھیں تو خدائی سے ہر انداز جدا ہے
یہ کام بشر کا ہے نہ جبریل ؑ کے بس میں
تُو خود ہی بتا اے مِرے مولاؐ کہ تو کیا ہے؟
کہنے کو تو ملبوسِ بشر اوڑھ کے آیا
لیکن تِرے احکام فلک پر بھی چلے ہیں
اُنگلی کا اشارہ تھا کہ تقدیر کی ضربت
مہتاب کے ٹکڑے تِری جھولی میں گِرے ہیں
کہنے کو تو بستر بھی میسر نہ تھا تجھ کو
لیکن تِری دہلیز پہ اُترے ہیں ستارے
انبوہِ ملائک نے ہمیشہ تِری خاطر
پلکوں سے تِرے شہر کے رَستے بھی سنوارے
کہنے کو تو فاقوں پہ بھی گزریں تِری راتیں
اسلام مگر اب بھی نمک خوار ہے تیرا
تُو نے ہی سکھائی ہے تمیزِ من و یزداں
انسان کی گردن پہ سدا بار ہے تیرا
کہنے کو تِرے سر پہ ہے دستارِ یتیمی
لیکن تو زمانے کے یتیموں کا سہارا
کہنے کو تِرا فقر تِرے فخر کا باعث
لیکن تُو سخاوت کے سمندر کا کنارا
کہنے کو تو ہجرت بھی گوارا تجھے لیکن
عالم کا دھڑکتا ہوا دل تیرا مکاں ہے
کہنے کو تو مسکن تھا تِرا دشت میں لیکن
ہر ذرّہ تِری بخششِ پیہم کا فشاں ہے
کہنے کو تو اِک "غارِ حرا" میں تِری مسند
لیکن یہ فلک بھی تِری نظروں میں "کفِ خاک"
کہنے کو تو "خاموش" مگر جنبشِ لب سے
دامانِ عرب گرد، گریبانِ عجم چاک
اے فکرِ مکمل، رُخِ فطرت، لبِ عالم
اے ہادئ کل، ختمِ رُسل، رحمتِ پیہم
اے واقفِ معراجِ بشر، وارثِ کونین
اے مقصدِ تخلیقِ زماں حُسنِ مجسّم
نسل بنی آدم کے حسیں قافلہ سالار
انبوہِ ملائک کے لیے ظلِّ الٰہی !
پیغمبرِ فردوسِ بریں، ساقئ کوثر
اے منزلِ ادراکِ دل و دیدہ پناہی
اے باعثِ آئینِ شب و روزِ خلائق
اے حلقۂ ارواحِ مقدّس کے پیمبر
اے تاجورِ بزمِ شریعت، مرے آقاؐ
اے عارفِ معراج بشر، صاحبِ منبر
اے سید و سرخیل و سرافراز و سخن ساز
اے صادق و سجاد و سخی ، صاحبِ اسرار
اے فکرِ جہاں زیب وجہاں گیر و جہاں تاب
اے فقرِ جہاں سوز و جہاں ساز و جہاں دار
اے صابر و صنّاع و صمیم و صفِ اوصاف
اے سرورِ کونین و سمیع ِ یمِ اَصوات
میزانِ اَنا، مکتبِ پندارِ تیقّن!
اعزازِ خودی، مصدرِ صد رُشد و ہدایات
اے شاکر و مشکور و شکیلِ شبِ عالم
اے ناصر ؔ و منصور ؔ و نصیرِ دلِ انساں
اے شاہدؔ و مشہودؔ و شہیدِ رُخِ توحید
اے ناظرؔ و منظورؔ و نظیرِ لبِ یزداں
اے یوسف ؑو یعقوب ؑکی اُمید کا محور
اے بابِ مناجاتِ دلِ یونس ؑو ادریسؑ
اے نوح ؑ کی کشتی کے لیے ساحلِ تسکیں
اے قبلۂ حاجاتِ سلیماںؑ ، شہِ بلقیسؑ
اے والئ یثرب! مِری فریاد بھی سُن لے
اے وارثِ کونین ! میں لب کھول رہا ہوں
زخمی ہے زباں، خامۂ دل خون میں تر ہے
شاعر ہوں مگر دیکھ میں سچ بول رہا ہوں
تُو نے تو مجھے اپنے معارف سے نوازا
لیکن میں ابھی خود سے شناسا بھی نہیں ہوں
تُونے تو عطا کی تھی مجھے دولتِ عرفاں
لیکن میں جہالت کے اندھیروں میں گھِرا ہوں
بخشش کا سمندر تھا تِرا لطف و کرم بھی
لیکن میں تِرا لطف و کرم بھول چکا ہوں
بکھری ہے کچھ ایسے شبِ تیرہ کی سیاہی
میں شعلگئ شمعِ حرم بھول چکا ہوں
تُو نے تو مجھے کفر کی پستی سے نکالا
میں پھر بھی رہا قامتِ الحاد کا پابند
تُو نے تو مِرے زخم کو شبنم کی زبان دی
میں پھر بھی تڑپتا ہی رہا صورتِ اَسپند
تُو نے تو مجھے نکتۂ شیریں بھی بتایا
میں پھر بھی رہا معتقدِ تلخ کلامی
تُو نے تو مِرا داغِ جبیں دھو بھی دیا تھا
میں پھر بھی رہا صید و ثناخوانِ غلامی
تُو نے تو مسلط کیا اَفلاک پہ مجھ کو
میں پھر بھی رہا خاک کے ذرّوں کا پجاری
تُونے تو ستارے بھی نچھاور کیے مجھ پر
میں پھر بھی رہا تیرگئ شب کا شکاری
تُو نے تو مجھے درسِ مساوات دیا تھا
میں پھر بھی مَن و تُو کے مراحل میں رہا ہوں
تُو نے تو جدا کرکے دکھایا حق و باطل
میں پھر بھی تمیزِ حق و باطل میں رہا ہوں
تُو نے تو کہا تھا کہ زمیں سب کے لیے ہے
میں نے کئی خطوں میں اسے بانٹ دیا ہے
تُو نے جسے ٹھوکر کے بھی قابل نہیں سمجھا
میں نے اُسی کنکر کو گہر مان لیا ہے
تُو نے تو کہا تھا کہ زمانے کا خداوند
اِنساں کے خیالوں میں کبھی آ نہیں سکتا
لیکن میں جہالت کے سبب صرف یہ سمجھا
وہ کیسا خدا؟ جس کو بشر پا نہیں سکتا
تُو نے تو کہا تھا کہ وہ اُونچا ہے خرد سے
میں نے یہی چاہا کہ اُتر آئے وہ خرد میں
تُو نے کہا تھا کہ "اَحد" ہے وہ اَزل سے
میں نے اُسے ڈھونڈا ہے سدا "حس و عدد" میں
اب یہ ہے کہ دنیا ہے مِری تیرہ و تاریک
سایہ غمِ دوراں کا محیطِ دل و جاں ہے
ہر لمحہ اُداسی کے تصرف میں ہے احساس
تا حدِّ نظر خوفِ مسلسل کا دھواں ہے
صحرائے غم و یاس میں پھیلی ہے کڑی دھوپ
کچھ لمسِ کفِ موجِ صبا تک نہیں ملتا
بے اَنت سرابوں میں کہاں جادۂ منزل
اپنا ہی نشانِ کفِ پا تک نہیں ملتا
اَعصاب شکستہ ہیں تو چھلنی ہیں نگاہیں
احساسِ بہاراں نہ غمِ فصلِ خزاں ہے
آندھی کی ہتھیلی پہ ہے جگنو کی طرح دل
شعلوں کے تصرف میں رگِ غنچۂ جاں ہے
ہر سمت ہے رنج و غم و آلام کی بارش
سینے میں ہر اِک سانس بھی نیزے کی اَنی ہے
اب آنکھ کا آئینہ سنبھالوں میں کہاں تک
جو اشک بھی بہتا ہے وہ ہیرےکی کنی ہے
احباب بھی اعداء کی طرح تیر بکف ہیں
اب موت بھٹکتی ہے صفِ چارہ گراں میں
سنسان ہے مقتل کی طرح شہر تصوّر
سہمی ہوئی رہتی ہے فغاں، خیمۂ جاں میں[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، موجِ ادراک: ص22

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.