کربلا اے سرخرو لوگوں کے سجدوں کی زمیں

شیعہ اشعار سے
کربلا اے سرخرو لوگوں کے سجدوں کی زمیں
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبمسدس
وزنفاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن
موضوعکربلائے معلّیٰ
زباناردو
تعداد بند9 بند


کربلا اے سرخرو لوگوں کے سجدوں کی زمیں: کربلا کی سرزمین کے لیے حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا خراجِ عقیدت ہے۔

تعارف

اس کلام میں محسن نقوی نے سرزمین کربلا کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی عظمت اور مرتبت کو حسین پیرائے میں بیان کیا ہے۔ کربلا کے لیے کعبۂ اربابِ دیں، مرکزِ انوارِ حق، بوسہ گاہ مرسلیں اور نقطۂ تکمیلِ معیارِ حرم جیسی تراکیب کلام کے حسن میں اضافہ کر رہی ہیں۔ آخری اشعار میں انہوں نے اس حقیقت کو بھی خوبصورت لفظوں میں برملا کردیا ہے کہ کربلا کی یہ ساری عظمت و سربلندی حضرت امام حسین ؑ کی دین ہے اور بس۔

مکمل کلام

کربلا، اے سرخرو لوگوں کے سجدوں کی زمیںقبلۂ فکر ونظر ، اے کعبۂ اربابِ دیں
مرکزِ انوارِ حق، اے بوسہ گاہ مرسلیں!تیرے ذرّوں سے دمکتی ہے دو عالم کی جبیں
ضَو، ستاروں میں ہے تیری مانگ بھرنے کے لیے
آسماں جھکتا ہے تجھ کو سجدہ کرنے کے لیے
کربلا، اے معجزاتِ ابن آدم کی کتابمحورِ مہر و مہ و انجم، جبینِ انقلاب
ظلمتِ باطل کو تُو ہے عرصۂ یوم الحسابتیرے ہر ذرے میں گم ہے کتنی صدیوں کا شباب
تُو نجاتِ ملتِ بیضا کی وہ تحریر ہے
تیری مٹی ابنِ مریم ؑ کے لیے اکسیر ہے
کربلا، اے عظمتِ عرشِ معلّیٰ کا حصاراے زمیں پر آسمانوں کی اکیلی تاجدار
روز و شب کی گردشیں ، تیرے بگولوں پر نثارتیری مٹی چومتا ہے صبر کا پروردگار!
تیرہ بختوں کے لیے تو رہگزارِ طور ہے
تُو غرورِ اہرمن کی دسترس سے دور ہے
کربلا، اے نقطۂ تکمیلِ معیارِ حرمٹوٹ کر تجھ پر برستا ہے سدا ابرِ کرم
تجھ سے قائم ہے مزاجِ آدمیت کا بھرمتیری ویرانی ہے فردوسِ بریں سے محترم
تُو مقدس ہے بہت اہل بصارت کے لیے
انبیاء آتے ہیں روز و شب زیارت کے لیے
کربلا، اے اختتامِ رہگزارِ بندگیتُو نے زندہ کردیا پھر سے وقار ِ بندگی
اے رگِ باطل پہ ضربِ ذوالفقارِ بندگیتُو جہاں میں ہے مزاجِ اقتدارِ بندگی
تُو فنا کی دھول میں نقشِ بقا انجام ہے
تُو فرشتوں پر بشر کی فوقیت کا نام ہے
کربلا، اے فاتحِ رسم و رہِ شام و سحرتُو نے اپنی خاک سے پیدا کیے شمس و قمر
تُو اُگلتی ہے سدا حق کے حسیں لعل و گہرتیرا ہر ذرّہ ہے جبریلِ اَمیں کا ہمسفر
جب تِری مٹی شہیدوں کا بچھونا ہوگئی
جوہری سب مر مٹے تجھ پر، تُو "سونا" ہو گئی
یاد کر، پہلے تُو کیا تھی؟ اِک زمینِ امتحاںہر طرف گرمِ سفر تھیں زلزلوں کی ہچکیاں
خیمہ زَن تھے چار سُو وحشی حذر کے کارواںزندگی کیا، موت کی سانسیں اکھڑتی تھیں یہاں
کس کے سجدے نے تیرے دل کو مصلّیٰ کر دیا؟
کس نمازی نے تجھے چھو کر معلّیٰ کر دیا؟
وہ حسین ؑ ابن علی ؑ، تعبیرِ خوابِ انبیاء ؑصاحبِ "اسرارِ کن" ، فخرِ دلِ ارض و سما
رونقِ بزمِ یقیں، صدرِ ہجومِ اولیاءوہ سخی، وہ مسند آرائے سریرِ "انَّما"
جس کی برکت سے تُو ارضِ کبریا کہلائے گی
خاک تیری حشر تک "خاکِ شفا" کہلائے گی
کربلا! تجھ پر تِرے سارے خزینوں پر سلامتیرے سینے پر سجے دلکش نگینوں پر سلام
خون کے چھینٹوں میں تر، اُجلی جبینوں پر سلامعرش قامت، گلبدن صحرا نشینوں پر سلام
میں کہ دریوزہ گرِ دروازۂ حسنین ؑ ہوں
کربلا، تیری زیارت کے لیے بے چین ہوں[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، موجِ ادراک: ص127

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.