نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر انیس |
قالب | سلام |
وزن | مفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن |
موضوع | دنیا سے بے رغبتی |
زبان | اردو |
تعداد بند | 11 بند |
نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں: خدائے سخن جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔
تعارف
اس سلام میں میر انیس کا تکیہ زاہدانہ زندگی گزارنے والوں کی روش کو اجاگر کرنے پر ہے جس کے لیے انہوں نے رسول اکرم ؐ کی حدیث " اَلْفَقْرُ فَخْرِي وَ بِهِ أَفْتَخِرُ"[1] اور حضرت علی ؑ کی نانِ جویں کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ ایک زاہد کے لیے خدا کی راہ میں تکالیف کا سہنا، اپنے علاوہ ہر ایک کو بہتر سمجھنا اور دنیا کے دامِ فریب میں نہ آنا ضروری جانا ہے۔
مکمل کلام
سلام
نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں | وہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں | |
کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سوا | ہر ایک ذرّے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں | |
کریم مجھ کو عطا کر وہ فقر دنیا میں | کہ جس کو فخر رسالت مآب ؐسمجھے ہیں | |
بھگو کے کھاتے ہیں پانی میں نانِ خشک کو وہ | اِس آبرو کو جو موتی کی آب سمجھے ہیں | |
ابو تراب ؑکے در کا ہے ذرۂ بے قدر | ہم آسماں پہ جسے آفتاب سمجھے ہیں | |
ارے نہ آئیو دنیائے دوں کے دھوکے میں | سراب ہے یہ جسے موجِ آب سمجھے ہیں | |
یہ اشکِ تاک ہے کہتے ہیں جس کو آبِ طرب | یہ خونِ گل ہے جسے سب گلاب سمجھے ہیں | |
شباب کھو کے بھی غفلت وہی ہے پیروں کو | سحر کی نیند کو بھی شب کا خواب سمجھے ہیں | |
جھکائیں سر کو نہ کیونکر عراق کے فصحا | سوالِ شاہ کو سب لاجواب سمجھے ہیں | |
خدا کی راہ میں ایذا سے جن کو راحت ہے | زمینِ گرم کو وہ فرشِ خواب سمجھے ہیں | |
انیسؔ مخمل و دیبا سے کیا فقیروں کو | اسی زمین کو ہم فرشِ خواب سمجھے ہیں[2] |
حوالہ جات
مآخذ
- رضوی، سید مسعود الحسن، روح انیس، الٰہ آباد، انڈین پریس لمیٹڈ، بی تا.