نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں

شیعہ اشعار سے
نظرثانی بتاریخ 07:19، 13 نومبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = میر انیس | قالب = سلام | وزن = مفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن | موضوع = دنیا سے بے رغبتی | مناسبت = | زبان = اردو | تعداد بند = 11 بند | منبع = }} '''نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں:''' خدائے...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں
معلومات
شاعر کا ناممیر انیس
قالبسلام
وزنمفاعلن فعِلاتن مفاعلن فعلن
موضوعدنیا سے بے رغبتی
زباناردو
تعداد بند11 بند


نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیں: خدائے سخن جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔

تعارف

اس سلام میں میر انیس کا تکیہ زاہدانہ زندگی گزارنے والوں کی روش کو اجاگر کرنے پر ہے جس کے لیے انہوں نے رسول اکرم ؐ کی حدیث "الفقر فخری" اور حضرت علی ؑ کی نانِ جویں کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ ایک زاہد کے لیے خدا کی راہ میں تکالیف کا سہنا، اپنے علاوہ ہر ایک کو بہتر سمجھنا اور دنیا کے دامِ فریب میں نہ آنا ضروری جانا ہے۔

مکمل کلام

سلام

نمود و بود کو عاقل حباب سمجھے ہیںوہ جاگتے ہیں جو دنیا کو خواب سمجھے ہیں
کبھی برا نہیں جانا کسی کو اپنے سواہر ایک ذرّے کو ہم آفتاب سمجھے ہیں
کریم مجھ کو عطا کر وہ فقر دنیا میںکہ جس کو فخر رسالت مآب ؐسمجھے ہیں
بھگو کے کھاتے ہیں پانی میں نانِ خشک کو وہاِس آبرو کو جو موتی کی آب سمجھے ہیں
ابو تراب ؑکے در کا ہے ذرۂ بے قدرہم آسماں پہ جسے آفتاب سمجھے ہیں
ارے نہ آئیو دنیائے دوں کے دھوکے میںسراب ہے یہ جسے موجِ آب سمجھے ہیں
یہ اشکِ تاک ہے کہتے ہیں جس کو آبِ طربیہ خونِ گل ہے جسے سب گلاب سمجھے ہیں
شباب کھو کے بھی غفلت وہی ہے پیروں کوسحر کی نیند کو بھی شب کا خواب سمجھے ہیں
جھکائیں سر کو نہ کیونکر عراق کے فصحاسوالِ شاہ کو سب لاجواب سمجھے ہیں
خدا کی راہ میں ایذا سے جن کو راحت ہےزمینِ گرم کو وہ فرشِ خواب سمجھے ہیں
انیسؔ مخمل و دیبا سے کیا فقیروں کواسی زمین کو ہم فرشِ خواب سمجھے ہیں[1]

حوالہ جات

  1. رضوی،روح انیس: ص240

مآخذ

  • رضوی، سید مسعود الحسن، روح انیس، الٰہ آباد، انڈین پریس لمیٹڈ، بی تا.