جز غم آل عبا ہم اور غم رکھتے نہیں
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر انیس |
قالب | غزل |
وزن | فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
موضوع | محبان اہل بیت ؑ کی عظمت |
زبان | اردو |
تعداد بند | 14 بند |
رنجِ دنیا سے کبھی چشم اپنی تر رکھتے نہیں: فردوسی ہند جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔
تعارف
پیش نظر سلام میں "میر انیس" نے محبانِ اہل بیت ؑ کی عظمت اور دنیا جہاں سے ان کی بے نیازی کو مختلف شعروں میں بڑے خوبصورت انداز سے بیان کیا ہے، یہاں تک لکھتے ہیں کہ کربلائے معلّیٰ کی زیارت نصیب ہونے کے بعد زائر والا مقام کی نظروں میں دنیا کی تو خیر کوئی وقعت ہی نہیں ہوتی، بلکہ وہ بڑی شانِ بے نیازی سے باغِ ارم کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔
مکمل کلام
سلام
رنجِ دُنیا سے کبھی چشم اپنی نم رکھتے نہیں | جُز غمِ آلِ عبا ہم اور غم رکھتے نہیں | |
کربلا پُہنچے، زیارت کی، ہمیں پروا ہے کیا؟ | اب ارم بھی ہاتھ آئے تو قدم رکھتے نہیں | |
در پہ شاہوں کے نہیں جاتے فقیر اللہ کے | سر جہاں رکھتے ہیں سب، ہم واں قدم رکھتے نہیں | |
دیکھنا کل ٹھوکریں کھاتے پھریں گے اُن کے سر | آج نخوت سے زمین پر جو قدم رکھتے نہیں | |
کہتے تھے اعدا کہ بچے بھی علی ؑکے شیر ہیں | جب بڑھاتے ہیں تو پھر پیچھے قدم رکھتے نہیں | |
دھو دئیے اشکوں نے دفتر سے تمام اعمالِ زشت | ہم تری پروا کچھ اے ابرِ کرم رکھتے نہیں | |
جو سخی ہیں مالِ دنیا سے ہیں خالی ان کے ہاتھ | اہلِ دولت جو ہیں وہ دستِ کرم رکھتے نہیں | |
جو مقرر ہے وہ ملتا ہے تِری سرکار سے | ہم ہیں صابر کچھ خیالِ بیش و کم رکھتے نہیں | |
زور سے اِس کے لیا ہے ہم نے میدانِ سخن | اور نیزہ ہاتھ میں غیر از قلم رکھتے نہیں | |
یہ دوات و خامہ ہے ملکِ فصاحت کا نشاں | کون کہتا ہے کہ ہم طبل وعلم رکھتے نہیں | |
نقدِجاں تک دے کے ہم جاتے ہیں یاں سے وقتِ کوچ | عاریت جو شے ہو اُس کو پاس ہم رکھتے نہیں | |
ایک کشکولِ توکل ، ایک نقدِ جاں ہے پاس | ہیں غنی دل کے کوئی دام و درَم رکھتے نہیں | |
کہتے تھے سجادؑ کھنچ سکتی نہ تھیں جب بیڑیاں | کیا کروں اس بوجھ کی طاقت قدم رکھتے نہیں | |
مرثیہ اِک دن میں کیا سب کہہ کے اُٹھو گے انیس | ہاتھ سے کیوں آج قرطاس و قلم رکھتے نہیں[1] |
حوالہ جات
- ↑ رضوی،روح انیس: ص239
مآخذ
- رضوی، سید مسعود الحسن، روح انیس، الٰہ آباد، انڈین پریس لمیٹڈ، بی تا.