دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہ

شیعہ اشعار سے
نظرثانی بتاریخ 14:21، 11 نومبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)
دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہ
معلومات
شاعر کا ناممیر انیس
قالبمسدس
وزنمفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
موضوعشہادت امام حسین ؑ
زباناردو
تعداد بند86 بند


دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہے میر انیس کا مقبول عام مرثیہ جو "انیس کے مرثیے، جلد دوم" کا پہلا مرثیہ ہے۔

تعارف

اس مرثیے کی ابتدا میں سرزمین کربلا کی تمجید کی گئی ہے پھر حضرت امام حسین علیہ السلام کے سراپا کی تعریف کرتے ہوئے جب بات گلوئے شاہ پہ پہنچتی ہے تو کلام کا رخ ایک تاریخی واقعے کی طرف موڑ دیا گیا ہے کہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسن مجتبی ؑ کے مبارک لب چومے، جبکہ امام حسین ؑ کے گلوئے مبارک پر بوسہ دیا، جس پر چھوٹے نواسے کا دل دکھا۔ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے رسول خاتم ؐ کی زبانی امام عالی مقام کی شہادت بیان کی گئی ہے۔

مکمل کلام

دشت وغا میں نور خدا کا ظہور ہےذروں میں روشنئ تجلئ طور ہے
اک آفتاب رخ کی ضیا دور دور ہےکوسوں زمین عکس سے دریائے نور ہے
اللہ رے حسن طبقۂ عنبر سرشت کا
میدان کربلا ہے نمونہ بہشت کا
حیراں زمیں کے نور سے ہے چرخ لاجوردمانند کہربا ہے رخ آفتاب زرد
ہے روکش فضائے ارم وادی نبرداٹھتا ہے خاک سے تتق نور جائے گرد
حیرت سے حاملان فلک ان کو تکتے ہیں
ذرے نہیں زمیں پہ ستارے چمکتے ہیں
ہے آب نہر صورت آئینہ جلوہ گرتاباں ہے مثل چشمۂ خورشید ہر بھنور
لہریں بسان برق چمکتی ہیں سر بہ سرپانی پہ مچھلیوں کی ٹھہرتی نہیں نظر
یہ آب و تاب ہے کہ گہر آب آب ہیں
دریا تو آسماں ہیں ستارے حباب ہیں
پرتو فگن ہوا جو رخ قبلۂ اناممشہور ہو گئی وہ زمیں عرش احتشام
اور سنگ ریزے در نجف بن گئے تمامصحرا کو مل گیا شرف وادی السلام
کعبہ سے اور نجف سے بھی عزت سوا ہوئی
خاک اس زمین پاک کی خاک شفا ہوئی
پھیلا جو نور مہر امامت دم زوالذروں سے واں کے آنکھ ملانا ہوا محال
سارے نہال فیض قدم سے ہوئے نہالاختر بنے جو پھول تو شاخیں بنیں ہلال
پتے تمام آئینۂ نور ہو گئے
صحرا کے نخل سب شجر طور ہو گئے
غل تھا زہے حسین کی شوکت زہے وقارگویا کھڑے ہیں جنگ کو محبوب کردگار
رخ سے عیاں ہے دبدبۂ شاہ ذو الفقارہے نور حق جبین منور سے آشکار
کیونکر چھپے نہ ماہ دوہفتہ حجاب سے
چودہ طبق میں نور ہے اس آفتاب سے
یہ روئے روشن اور یہ گیسوئے مشک فامیاں شام میں تو صبح ہے اور صبح میں ہے شام
ہالے میں یوں نظر نہیں آتا ہے مہ تمامقدرت خدا کی نور کا ظلمت میں ہے مقام
زلفوں میں جلوہ گر نہیں چہرہ جناب کا
ہے نصف شب میں آج ظہور آفتاب کا
قرباں کمان ابروئے مولا پہ جان و دلگر ماہ نو کہیں تو ہے تشبیہ مبتذل
چشم غزال دشت ختن چشم سے خجلدیکھا جسے کرم سے خطائیں ہوئیں بحل
پتلی بسان قبلہ نما بے قرار ہے
گریاں ہیں وہ یہ گردش لیل و نہار ہے
رخسار ہیں ضیا میں قمر سے زیادہ ترجن پر ٹھہر سکی نہ کبھی شمس کی نظر
ریش مخضب اور یہ رخ شاہ بحر و برپیدا ہیں صاف معنی و اللیل و القمر
قرآن سے عیاں ہے بزرگی امام کی
کھائی قسم خدا نے اسی صبح و شام کی
کس منہ سے کیجئے لب جان بخش کا بیاںچوسی جنہوں نے احمد مختار کی زباں
کیا در آب دار ہیں اس درج میں نہاںگویا کہ موتیوں کا خزانہ ہے یہ دہاں
ذرے زمیں پہ عکس سے سارے چمک گئے
جس وقت یہ کھلے تو ستار چمک گئے
شمع حریم لم یزل تھا گلوئے شاہتاریک شب میں جیسے ہویدا ہو نور ماہ
اے چرخ بے مدار یہ کیسا ستم ہے آہشمشیر شمر اور محمد کی بوسہ گاہ
جس پر رسول ہونٹوں کو ملتے ہوں پیار سے
کٹ جائے کربلا میں وہ خنجر کی دھار سے
منظور یاں تھی مدح گلوئے شہ اممیاد آ گئی مگر یہ حدیث غم و الم
مسجد میں جلوہ گر تھے رسول فلک حشمملتے تھے ذکر حق میں لب پاک دم بہ دم
روشن تھے بام و در رخ روشن کے نور سے
آئینہ بن گئی تھی زمیں تن کے نور سے
تھا جو ستوں کہ رکن رسالت کا تکیہ گاہکرسی بھی اس کی پشت کی تھی ڈھونڈھتی پناہ
تھا جس حصیر پر وہ دو عالم کا بادشاہحسرت سے عرش کرتا تھا اس فرش پر نگاہ
اوج زمیں بہشت بریں سے دو چند تھا
منبر کا نہ فلک سے بھی پایہ بلند تھا
اصحاب خاص گرد تھے انجم کی طرح سبتاباں تھا بیچ میں وہ مہ ہاشمی لقب
سر پر ملک صفات مگس راں تھے دو عربجبریل تہ کیے ہوئے تھے زانوئے ادب
خادم بلال و قنبر گروں اساس تھا
نعلین اس کے پاس عصا اس کے پاس تھا
گیسو تھے وہ مفسر و اللیل اذا سجارخ سے عیاں تھے معنی و الشمس و الضحا
وہ ریش پاک اور رخ سردار انبیاگویا دھرا تھا رحل پہ قرآں کھلا ہوا
اوڑھے سیہ عبا جو وہ عالم پناہ تھا
کعبہ کا صاف حاجیوں کو اشتباہ تھا
پہلو میں بادشاہ کے تھا جلوہ گر وزیرسردار دیں علی ولی خلق کا امیر
دونوں جہاں میں کوئی نہ دونوں کا تھا نظیراحمد تھے آفتاب تو حیدر مہ منیر
ظاہر میں ایک نور کا دو جا ظہور تھا
گر غور کیجیے تو وہی ایک نور تھا
مصروف وعظ و پند تھے سلطان مشرقینجو گھر سے نکلے کھیلتے زہرا کے نور عین
نانا بغیر دونوں نواسوں کو تھا نہ چینبڑھ جاتے تھے حسن کبھی آگے کبھی حسین
کہتے تھے دیکھیں کون قدم جلد اٹھاتا ہے
نانا کے پاس کون بھلا پہلے جاتا ہے
وہ گورے گورے چہروں پہ زلفیں ادھر ادھرکرتے گلوں میں نورِ بدن جن سے جلوہ گر
اختر سے وہ چمکتے ہوئے کان کے گہررشک ہلال طوق گلے غیرت قمر
ہیکل پہ نقش نام خدائے جلیل کے
تعویذ گردنوں پہ پر جبرئیل کے
مسجد میں آئے ہنستے ہوئے جب وہ گل بدنخوشبو سے صحن مسجد جامع بنا چمن
تسلیم کو حسین سے پہلے جھکے حسنخوش ہو کے مسکرانے لگے سرور زمن
بڑھ بڑھ کے خم سلام کو چھوٹے بڑے ہوئے
بیٹھے رہے رسول ملک اٹھ کھڑے ہوئے
بیٹوں کو تھا علی کا اشارہ کہ بیٹھ جاؤلازم نہیں کہ وعظ میں نانا کو تم ستاؤ
پھیلا کے ہاتھ بولے محمد کہ آؤ آؤشبیر نے کہا ہمیں پہلے گلے لگاؤ
بھائی حسن جو آپ کی گودی میں آئیں گے
ہم تم سے نانا جان ابھی روٹھ جائیں گے
بولے حسن کہ واہ ہمیں اور کریں نہ پیاراقرار کے چکے ہیں شہنشاہ نام دار
بولے بہ چشم نم یہ حسین فلک وقاردیکھیں تو کون کاندھے پہ ہوتا ہے اب سوار
سب سے سوا جو ہیں سو ہمیں ان کے پیارے ہیں
آگے نہ بڑھیے آپ کہ نانا ہمارے ہیں
بھائی سے تب کہا یہ حسن نے بہ التفاتبے وجہ ہم سے روٹھے ہو تم اے نکو صفات
نانا ہمارے کیا نہیں سلطان کائناتہوتی ہے ناگوار تمہیں تو ذرا سی بات
غصہ نہ اتنا چاہیئے خوش خو کے واسطے
مچلے تھے یوں ہی بچۂ آہو کے واسطے
یہ سن کے منہ علی کا لگے دیکھنے رسولہنس کر کہا یہ دونوں ہیں میرے چمن کے پھول
میں چاہتا ہوں ایک کی خاطر نہ ہو ملولروئیں گے یہ تو گھر سے نکل آئے گی بتول
ہووے نہ رنج میرے کسی نور عین کو
تم لو حسن کو گود میں میں لوں حسین کو
شبر سے پھر اشارہ کیا ہو کے بے قرارغصہ نہ کھاؤ پہلے تمہیں کو کریں گے پیار
پھر بولے دیکھ کر سوئے شبیر نامدارآ اے حسین آ تری باتوں کے میں نثار
چھاتی سے ہم لگائیں گے جان اپنی جان کر
دیکھیں تو پہلے کون لپٹتا ہے آن کر
دوڑے یہ بات سن کے برابر وہ خوش سیرپاس آئے آفتاب رسالت کے دو قمر
لپٹے حسین ہنس کے ادھر اور حسن ادھرتھے پانوں زانوؤں پہ تو بالائے دوش سر
نانا کے ساتھ پیار میں دونوں کا ساتھ تھا
گردن میں ایک ان کا اور ان کا ہاتھ تھا
پھر پھر کے دیکھتے تھے شہنشاہ مشرقینگہہ جانب حسن تو کبھی جانب حسین
بیٹھے جو زانوؤں پہ وہ زہرا کے نور عینتھا تن کو لطف قلب کو راحت جگر کو چین
جھک جھک کے منہ رسول زمن چومنے لگے
ان کا گلا تو ان کا دہن چومنے لگے
شبیر چاہتے تھے کہ چومیں مرے بھی لبپر کچھ گلے کے بوسوں کا کھلتا نہ تھا سبب
نانا کے منہ کے پاس یہ لاتے تھے منہ کو جبجھک جھک کے چومتے تھے گلا سید عرب
بھائی کو دیکھ کر جو حسن مسکراتے تھے
غیرت سے ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے
اٹھے حسین زانوئے احمد سے خشمگیںغصے سے رنگ زرد اور آنکھوں پہ آستیں
رخ پر پسینہ جسم میں رعشہ جبیں پہ چیںپوچھا کدھر چلے تو یہ بولے کہیں نہیں
گھر میں اکیلے تیوری چڑھائے چلے گئے
دیکھا نہ پھر کے سر کو جھکائے چلے گئے
بیت الشرف میں آئے جو شبیر نام دارکرتے کو منہ پہ رکھ کے لگے رونے زارزار
دوڑیں یہ کہہ کے فاطمہ زہرا جگر فگارہے ہے حسین کیا ہوا تو کیوں ہے اشک بار
تجھ کو رلا کے غم میں مجھے مبتلا کیا
قربان ہو گئی تجھے کس نے خفا کیا
میرا کلیجہ پھٹتا ہے اے دل ربا نہ روزہرا ہزار جان سے تجھ پہ فدا نہ رو
سر میں نہ درد ہو کہیں اے مہ لقا نہ روبس بس نہ رو حسین برائے خدا نہ رو
میری طرف تو دیکھو کہ بیتاب ہوتی ہوں
چادر سے منہ کو ڈھانپ کے لو میں بھی روتی ہوں
تو منہ تو کھول اے مرے شبیر خوش خصالتر ہو گئے ہیں آنسوؤں سے گورے گورے گال
مل مل کے پشت دست سے آنکھ کرو نہ لالسلجھاؤں آؤ الجھے ہوئے گیسوؤں کے بال
گھر سے گئے تھے ساتھ جدا ہو کے آئے ہو
سمجھی میں کچھ حسن سے خفا ہو کے آئے ہو
تم چپ رہو وہ گھر میں تو مسجد سے پھر کے آئیںگزری میں کھیل سے مرے بچے کو کیوں رلائیں
ان سے نہ بولیو وہ تمہیں لاکھ گر منائیںلو آؤ جانے دو تمہیں چھاتی سے ہم لگائیں
واری اگر حسن نے رلایا برا کیا
پوچھوں گی کیا نہ میں مرے پیارے نے کیا کیا
بولے حسین ہم تو ہیں اس بات پر خفانانا نے چومے بھائی کے ہونٹ اور مرا گلا
تم اماں جان منہ کو تو سونگھو مرے ذراکچھ بوئے ناگوار ہے میرے دہن میں کیا
بھائی کے لب سے اپنے لبوں کو ملاتے ہیں
اب ہم نہ جائیں گے ہمیں نانا رلاتے ہیں
منہ رکھ کے منہ پہ بولی یہ زہرا جگر فگاربوئے گلاب آتی ہے اے میرے گلغدار
چوما اگر گلا تو خفا ہو نہ میں نثارتم کو زباں چوساتے تھے محبوب کردگار
یہ مشک میں مہک نہ گل یاسمن میں ہے
خوش بو اسی دہن کی تمہارے دہن میں ہے
کہنے لگے حسین یہ ماں سے بہ چشم نمکیا جانو تم حسن سے ہمیں چاہتے ہیں کم
یہ کیا انہیں پہ لطف و عنایت ہے دم بہ دممعلوم ہو گیا انہیں پیارے نہیں ہیں ہم
رو رو کے آج جان ہم اپنی گنوائیں گے
پانی نہ اب پئیں گے نہ کھانے کو کھائیں گے
یہ بات سن کے ہو گیا زہرا کا رنگ فقبولی پسر سے رو کے وہ بنت رسول حق
صدقے گئی کرو نہ کلیجے کو میرے شقہے ہے یہ کیا کہا مجھے ہوتا ہے اب قلق
میرا لہو بہے گا جو آنسو بہاؤ گے
کاہے کو ماں جیے گی جو کھانا نہ کھاؤگے
یہ کہہ کے اوڑھ لی سر پر نور پر رداموزے پہن کے گود میں شبیر کو لیا
در تک گئی جو گھر سے وہ دل بند مصطفافضہ نے بڑھ کے بوزر و سلماں کو دی صدا
پیش نبی حسین کو گودی میں لاتی ہیں
ہٹ جاؤ سب کہ فاطمہ مسجد میں آتی ہیں
اللہ رے آمد آمد زہرا کا بندوبستساتوں فلک تھے اوج شرافت سے جس کے پست
احمد کے گرد و پیش سے اٹھے خدا پرستانساں تو کیا ملک کو نہ تھی قدرت نشست
آئیں تو شاد شاد رسول زمن ہوئے
گھر میں خدا کے ایک جگہ پنج تن ہوئے
تعظیم فاطمہ کو اٹھے سید البشردیکھا کہ چشم فاطمہ ہے آنسوؤں سے تر
غم تھے حسین دوش پہ ماں کے جھکائے سرتھا اک ہلال مہر کے پہلو میں جلوہ گر
ماں کہتی تھی نہ رؤو مگر چپ نہ ہوتے تھے
آنکھیں تھیں بند ہچکیاں لے لے کے روتے تھے
گھبرا کے پوچھنے لگے محبوب ذو الجلالروتا ہے کیوں حسین یہ کیا ہے تمہارا حال
بولیں بتول آج قلق ہے مجھے کمالرویا ہے یہ حسین کہ آنکھیں ہیں دونوں لال
آتے ہیں ہنستے روتے ہوئے گھر میں جاتے ہیں
شفقت بھی آپ ہی کرتے ہیں آپ ہی رلاتے ہیں
ہاتھوں کو جوڑتی ہوں میں یا شاہ بحر و برشفقت کی اس کے حال پہ ہر دم رہے نظر
رونے سے اس کے ہوتا ہے ٹکڑے مرا جگرمجھ فاقہ کش غریب کا پیارا ہے یہ پسر
حیدر سے پوچھیے مرے عسرت کے حال کو
کس کس دکھوں سے پالا ہے اس نونہال کو
اشک اس کے جتنے ٹپکے ہیں یا شاہ نیک خواتنا ہی گھٹ گیا ہے مرے جسم کا لہو
روئے ہیں پھوٹ پھوٹ کے یہ میرے رو بہ روتر ہو گیا ہے آنسوؤں سے چاند سا گلو
دیکھا نہ تھا یہ میں نے جو حال اس کا آج ہے
حضرت تو جانتے ہیں کہ نازک مزاج ہے
شفقت سے آج آپ نے چومے حسن کے لببوسہ لیا نہ ان کے لبوں کا یہ کیا سبب
رتبے میں دونوں ایک ہیں یا سرور عربمیں سچ کہوں یہ سن کے مجھے بھی ہوا عجب
اس کو جو ہو خوشی تو دل اس کا بھی شاد ہو
چھوٹے سے چاہیئے کہ محبت زیاد ہو
آپ ان کے ناز اٹھاتے ہیں یا شاہ بحر و برپھر کس سے روٹھیں آپ سے روٹھیں نہ یہ اگر
اکثر انہیں چڑھایا ہے حضرت نے دوش پرگیسو دئیے ہیں ننھے سے ہاتھوں میں بیشتر
روٹھے تھے یہ سو قدموں پہ سر دھرنے آئے ہیں
منہ کے نہ چومنے کا گلا کرنے آئے ہیں
یہ کہہ کے پھر حسین سے بولیں بہ چشم ترلو جا کے اب نبی کے قدم پر جھکاؤ سر
آئے حسین ہاتھ جو ننھے سے جوڑ کربے اختیار رونے لگے سید البشر
رہ رہ کے دیکھتے تھے علی و بتول کو
نزدیک تھا قلق سے غش آئے رسول کو
تھی آنسوؤں سے ریش مبارک تمام نمفرط بکا سے خاک پہ جھکتے تھے دم بہ دم
گاہے ستوں سے لگ کے ہوئے راست گاہ خمہر لحظہ اضطراب زیادہ تھا صبر کم
ہو سکتا تھا نہ ضبط شۂ مشرقین سے
روتے تھے بار بار لپٹ کر حسین سے
شبیر رو کے کہتے تھے نانا نہ روئیےروئیں گے اب نہ ہم شۂ والا نہ روئیے
ہلنے لگے گا عرش معلےٰ نہ روئیےپھٹتا ہے اب ہمارا کلیجہ نہ روئیے
سو بار دن میں ہم تو منہ اشکوں سے دھوتے ہیں
حضرت ہمارے رونے پہ کاہے کو روتے ہیں
گھبرا گئے علی ولی شاہ بحر و برکی عرض فاطمہ نے جھکا کے قدم پہ سر
بیٹی نثار ہو گئی یا سید البشرکیا وجہ ہے جو آپ ہیں اس طرح نوحہ گر
جلدی بتائیے کہ مجھے تاب اب نہیں
رونا خدا کے دوست کا یہ بے سبب نہیں
حضرت کو علم غیب ہے یا شاہ انس و جاںآئندہ و گزشتہ کا سب حال ہے عیاں
کیا آئی آج وحی خداوند دو جہاںہونا ہے جو حسین پہ مجھ سے کرو بیاں
فاقوں سے کاٹتی ہوں مصیبت جہان کی
کیوں بابا جان خیر تو ہے اس کی جان کی
بولے جگر کو تھام کے محبوب ذو الجلالتجھ سے سنا نہ جائے گا اے فاطمہ یہ حال
کس منہ سے میں کہوں کہ قلق ہے مجھے کمالزہرا شہید ہوویں گے تیرے یہ دونوں لال
ماتم کی یہ خبر ابھی جبریل لائے تھے
سارے ملک حسین کے پرسے کو آئے تھے
الماس پی کے ہوئے گا بے جاں ترا حسنیہ وجہ ہے کہ چومتا ہوں اس کا میں دہن
بھر جائے گا کلیجوں کے ٹکڑوں سے سب لگنہوگا زمردی ترے اس لال کا بدن
سوئے بہشت جب یہ جہاں سے سدھاریں گے
بد کیش تیر اس کے جنازے پہ ماریں گے
زہرا مجھے کلام کی طاقت نہیں ہے ابحلق حسین چومنے کا کیا کہوں سبب
اک بن میں تین روز رہیں گے یہ تشنہ لبکٹ جائے گا گلا یہی خنجر سے ہے غضب
نیزے پہ سر چڑھے گا ترے نور عین کا
گھوڑوں سے روند ڈالیں گے لاشہ حسین کا
روئے خبر یہ کہہ کے جو محبوب ذو المننگھبرا کے منہ حسین کا تکنے لگے حسن
زہرا پکاری ہائے لٹے گا مرا چمنمیں مر گئی دہائی ہے یا سرور زمن
یہ کیسی آگ ہے کہ مری کوکھ جل گئی
ہے ہے چھری کلیجے پہ زہرا کے چل گئی
فریاد یا نبی شہِ ابرار الغیاثاے مرسلان حق کے مددگار الغیاث
اے بے کسوں کے وارث و سردار الغیاثاے جز و کل کے مالک و مختار الغیاث
قدرت ہے سب طرح کی شہِ مشرقین کو
حضرت سے لوں گی اپنے حسن اور حسین کو
کس جرم پر یہ لال مرے قتل ہوں گے آہرو کر کہا رسول خدا نے کہ بے گناہ
کی عرض فاطمہ نے کہ اے عرش بارگاہبچوں کو میرے کیا نہ ملے گی کہیں پناہ
تلواریں کھینچ کھینچ کے ظالم جو آئیں گے
حضرت نہ کیا نواسوں کو اپنے بچائیں گے
آساں ہے کیا جو قتل کریں گے ستم شعارکیا شیر حق کمر سے نہ کھینچیں گے ذو الفقار
اعدا پہ کیا چلے گا نہ دست خدا کا واربالوں کو کیا نہ کھولے گی زہرا جگر فگار
ٹکڑے جگر جو ہوئے گا مجھ دل دو نیم کا
پایہ نہ کیا ہلاؤں گی عرش عظیم کا
زہرا سے رو کے کہنے لگے شاہ نیک خوبیٹی مجھے ستائیں گے تربت میں کینہ جو
اس وقت قتل ہوئیں گے یہ دونوں ماہ رودنیا میں جب نہ ہوگا علی اور نہ میں نہ تو
لاشے پہ مجتبیٰ کے تو شبیر روئے گا
شبیر جب مرے گا تو کوئی نہ ہوئے گا
چلائی سر پٹک کے یہ زہرا کہ ہے ستمپیٹے گا کون تن سے جو نکلے گا اس کا دم
ماتم کی صف بچھائے گا کون اے شہ اممپرسے کو کون آئے گا اس کے بہ چشم نم
ہم میں سے ایسے وقت جو کوئی نہ ہوئے گا
ہے ہے مرے حسین کو پھر کون روئے گا
بچے کی میرے تعزیہ داری کرے گا کون؟منہ ڈھانپ ڈھانپ گریہ و زاری کرے گا کون؟
دریائے اشک چشم سے جاری کرے گا کون؟امداد بعد مرگ ہماری کرے گا کون؟
ہوگا کہاں نبی کے نواسے کا فاتحہ؟
شربت پہ کون دیوے گا پیاسے کا فاتحہ؟
بولے نبی کہ آپ کو زہرا نہ کر ہلاکفرما چکا ہے مجھ سے یہ وعدہ خدائے پاک
پیدا کریں گے قوم اک ایسی بہ روئے خاکجو رات دن رہیں گے اسی غم میں درد ناک
بزم عزا میں آئیں گے وہ دور دور سے
تن خاک سے بنائیں گے دل ان کے نور سے
ہوگی انہیں سے مجلس ماتم کی زیب و زیندیں گے انہیں وہ لب کہ رہے جس پہ وا حسین
آنکھیں وہ دیں گے رونے کو سمجھیں جو فرض عینہاتھ ایسے غیر سینہ زنی ہو جنہیں نہ چین
سامان تعزیت کے کبھی کم نہ ہوئیں گے
وہ حشر تک حسین کے ماتم میں روئیں گے
ہوگا عیاں فلک پہ محرم کا جب ہلالرخت سیاہ پہنیں گے بر میں وہ خوش خصال
کھولیں گی بیبیاں بھی سب اپنے سروں کے بالہر گھر میں ہوگا شور کہ ہے ہے علی کا لال
لیں گے صلے میں خلد ترے نور عین سے
آنسو عزیز وہ نہ کریں گے حسین سے
پیاسا شہید ہوگا جو تیرا یہ دل ربامومن سبیلیں رکھیں گے پانی کی جا بجا
ہووے گی شاد روح شہیدان کربلابھر بھر کے آب سرد پکاریں گے برملا
محبوب کبریا کے نواسے کی نذر ہے
پیاسے نہ جائیو کہ یہ پیاسے کی نذر ہے
کہنے لگی نبی سے بتول فلک جنابہے ہے میں کیا کروں مرے دل کو نہیں ہے تاب
اے بادشاہ کون و مکاں مالک الرقابدرگاہ حق میں آپ کی ہے عرض مستجاب
کیجے دعا کہ خالق اکبر مدد کرے
اللہ یہ بلا مرے بچے کی رد کرے
بیٹی سے رو کے کہنے لگے شاہ کائناتروح الامیں نے مجھ سے تو یہ بھی کہی ہے بات
چاہو تو رد کرے یہ بلا رب پاک ذاتلیکن نہ ہوے گی مرے امت کی پھر نجات
محبوب حق نثار ترے نور عین پر
موقوف ہے یہ امر تو قتل حسین پر
اللہ رے صبر دختر محبوب کردگارامت کا نام سن کے جھکایا سر ایک بار
خوشنود ہو کے کہنے لگے شاہ ذوالفقارصدقے حسن حسین تصدق علی نثار
اس راہ میں نہ مال نہ دولت عزیز ہے
پیارے پسر نہیں ہمیں امت عزیز ہے
کہنے لگے حسین سے پھر شاہ بحر و بربتلا مجھے کہ کیا تری مرضی ہے اے پسر
نانا سے بولے چھوٹے سے ہاتھوں کو جوڑ کرامت کے کام آئے تو حاضر ابھی ہے سر
وعدہ کو ہم نہ بھولیں گے گو خورد سال ہیں
چھوٹے نہیں ہیں مخبر صادق کے لال ہیں
روتے ہیں آپ کس لیے یا سید اممراضی ہیں ہم پہ راہ خدا میں ہوں جو ستم
تلواریں بھی چلیں تو نہیں مارنے کے دمامت پہ اپنے سر کو تصدق کریں گے ہم
ہم راست گو ہیں بات پہ جس وقت آتے ہیں
کہتے ہیں جو زباں سے وہی کر دکھاتے ہیں
بچپن میں جو زباں سے کہا تھا کیا وہ کامجس وقت رن میں ٹوٹ پڑے شہ پہ فوج شام
گردن جھکا کے برچھیاں کھایا کیے امامخوں میں قبا رسول کی تر ہو گئی تمام
تیغیں علی کے لال کے شانے پہ چل گئیں
چھاتی کے پار نیزوں کی نوکیں نکل گئیں
پھیری نہ تھی جو پشت مبارک دم مصافتھے دو ہزار زخم فقط سر سے تا بہ ناف
سید سے بے وطن سے زمانہ تھا بر خلافغل تھا کہ آج ہوتا ہے گھر فاطمہ کا صاف
سنبھلا نہ جائے گا خلف بو تراب سے
لو وہ قدم حسین کے نکلے رکاب سے
مینہ کی طرح برسنے لگے شاہ دیں پہ تیرتھرا رہے تھے لگ کے تن نازنیں پہ تیر
دامن پہ تیر جیب پہ تیر آستیں پہ تیرپہلو پہ تیغ سینہ پہ نیزہ جبیں پہ تیر
داغوں سے خوں کے رخت بدن لالہ زار تھا
شکل ضریح سینۂ اقدس فگار تھا
تر تھی لہو میں زلف شکن در شکن جدامجروح لعل لب تھے جدا اور دہن جدا
درپئے تھے نیزہ دار جدا تیغ زن جداکٹ کٹ کے ہو گیا تھا ہر اک عضو تن جدا
سی پارہ تھا نہ صدر فقط اس جناب کا
پرزے ورق ورق تھا خدا کی کتاب کا
کرتا تھا وار برچھیوں والوں کا جب پراتیغوں سے دم بھی لینے کی مہلت نہ تھی ذرا
نیزوں میں خوں نبی کے نواسے کا تھا بھراشمشیر و تیر نیزہ و خنجر کے ماورا
تھیں سختیاں ستم کی شہ خوش خصال پر
چلتے تھے سنگ فاطمہ زہرا کے لال پر
تھے دو ہزار جسم شۂ بحر و بر پہ زخمماتھے پہ زخم تیر کے تیغوں کے سر پہ زخم
گردن پہ زخم سینہ پہ زخم اور کمر پہ زخماور اس کے ماورا تھے بہتر جگر پہ زخم
گھوڑے پہ گہہ سنبھلتے تھے گہہ ڈگمگاتے تھے
غش آتا تھا تو ہرنے پہ سر کو جھکاتے تھے
گھوڑے پہ جب سنبھلنے کی مطلق رہی نہ تابہاتھوں سے باگ چھوٹ گئی اور پاؤں سے رکاب
گرنے لگا جو خاک پہ وہ آسماں جنابمرقد میں بے قرار ہوئی روح بو تراب
غل تھا کہ خاک پر شہ کون و مکاں گرا
بس اب زمیں الٹ گئی اور آسماں گرا
جلتی ہوئی زمیں پہ تڑپنے لگے امامبے کس پہ ظالموں نے کیا اور اژدہام
اس وقت شمر سے یہ عمر نے کیا کلامہاں تن سے جلد کاٹ سر سرور انام
ڈریو نہ سن کے فاطمہ زہرا کی آہ کو
گل کر دے شمع قبر رسالت پناہ کو
یہ سنتے ہی چڑھائی ستمگر نے آستیںخنجر کمر سے کھینچ کے آگے بڑھا لیں
تھے قبلہ رو جھکے ہوئے سجدے میں شاہ دیںلب ہلتے دیکھے شاہ کے آیا وہ جب قریں
سمجھا کہ تشنگی سے جو صدمے گزرتے ہیں
اس وقت بد دعا مجھے شبیر کرتے ہیں
جھک کر قریب کان جو لایا تو یہ سناحق میں گناہ گاروں کے کرتے ہیں شہ دعا
جاری زبان خشک پہ یہ ہے کہ اے خداکر حاجتوں کو میرے محبوں کی تو روا
شیعوں کا حشر روز جزا میرے ساتھ ہو
میرا یہ خوں بہا ہے کہ ان کی نجات ہو
یہ سن کے مستعد ہوا وہ شہ کے قتل پرزانو رکھا حسین کے سینے پہ بے خطر
گردن پہ پھیرنے لگا خنجر جو بد گہرآئی صدا علی کی کہ ہے ہے مرے پسر
زہرا پکاری کچھ بھی نبی سے حجاب ہے
ظالم یہ بوسہ گاہ رسالت مآب ہے
کیوں ذبح میرے لال کو کرتا ہے بے گناہکیوں کاٹتا ہے میرے کلیجے کو رو سیاہ
کشتی کو اہل بیت نبی کی نہ کر تباہمیں فاطمہ ہوں عرش ہلائے گی میری آہ
ہوئے گا حشر قتل جو یہ بے وطن ہوا
یہ مر گیا تو خاتمہ پنج تن ہوا
آواز اپنی ماں کی یہ زینب نے جب سنیدوڑی نکل کے خیمے سے سر پیٹتی ہوئی
دیکھا کہ ذبح کرتا ہے حضرت کو وہ شقیسر پیٹ کر یہ کہنے لگی وہ جگر جلی
ہے ہے نہ تین روز کے پیاسے کو ذبح کر
ظالم نہ مصطفی کے نواسے کو ذبح کر
بانو پکارتی تھی یہ کیا کرتا ہے لعیںپیاسا ہے تین روز سے حیدر کا جا نشیں
چلاتی تھی سکینہ کہ جینے کی میں نہیںبابا کو ذبح کرتا ہے کیوں اے عدوئے دیں
خنجر نہ پھیر چاند سی گردن پہ رحم کر
ابا کو چھوڑ دے مرے بچپن پہ رحم کر
زخموں سے چور چور ہے زہرا کا یادگارجس چھاتی پر میں سوتی تھی اس پر ہے تو سوار
بابا کے حلق پر نہ پھرا اب چھری کی دھاربدلے پدر کے سر کو مرے تن سے تو اتار
سید پہ تشنہ لب پہ ستم اس قدر نہ کر
پوتی ہوں فاطمہ کی مجھے بے پدر نہ کر
رو کر بیاں یہ کرتی تھی وہ سوختہ جگردے کر دہائی اہل حرم پیٹتے تھے سر
کرتا تھا ذبح شہ کو وہاں شمر بد گہرفرماتے تھے یہ شاہ کہ پیاسا ہوں رحم کر
پانی دیا نہ ہائے نبی کے نواسے کو
جلاد ذبح کرنے لگا بھوکے پیاسے کو
آخر سر امام امم تن سے کٹ گیاچلا کے فاطمہ نے یہ زینب کو دی صدا
میداں سے جلد لے کے سکینہ کو گھر میں جابے جرم کٹ گیا ترے ماں جائے کا گلا
مارا بظلم شمر نے پیاسے کو جان سے
میں لٹ گئی حسین سدھارے جہان سے
بس اے انیس بزم میں ہے نالہ و فغاںپوچھ ان کے دل سے جو ہیں سخن فہم نکتہ داں
حق ہے سنا نہیں کبھی اس حسن کا بیاںگویا کہ یہ خلیق کی ہے سر بہ سر زباں
سچ ہے کہ اس زباں کو کوئی جانتا نہیں
جو جانتا ہے اور کو وہ مانتا نہیں[1]

حوالہ جات

  1. انیس کے مرثیے: ج2، ص13

مآخذ

  • صالحہ عابد حسین، انیس کے مرثیے، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، طبع دوم، 1990ء.