ہم علی کو خدا نہیں جانا

شیعہ اشعار سے

ہم علی کو خدا نہیں جانا: میر تقی میر دہلوی کی لکھی مناقب کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔

تعارف

مولائے کائنات حضرت علی شیرا خدا علیہ السلام کی شان میں لکھی گئی یہ ترجیع بند "فاعلاتن مفاعلن فعلن" کے وزن پر ہے۔ جو کلیات میر میں "ترجیع بند در منقبت حضرت علی کرّم اللّٰہ وجہہ" کے عنوان سے مرقوم ہے اور زیادہ تر 9 ابیات کے بعد "ہم علی کو خدا نہیں جانا، پر خدا سے جدا نہیں جانا" کی تکرار کی گئی ہے۔

مکمل کلام

قابل سجدہ ہے علی کا درباب تعظیم ہے علی کا گھر
ہے علی ہی کا نام موجوداتہے علی افتخار نوع بشر
فرش رہ عرش ہو نہیں سکتامنزلت ہے علی کی بالاتر
منبع لطف و مظہر احساںمصدر صدہزار فضل و ہنر
تھا پرآشوب جن کے شور سے دہرکردیے خاکوں میں انھوں کے سر
قدرت اس کی، خدا کی قدرت ہےزور اچنبھا عجیب زورآور
اعتقاد اپنے کو چھپایا ہےیہ جو کہتے ہیں پاس ظاہر کر
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
ہے علی جملہ عزت و اعزازجان بھی اپنی ہے علی کی نیاز
غم شریک محمدؐ عربیحرمت کعبہ آبروے حجاز
خاک دروازۂ علی رہیےہوویں یاور جو طالع ناساز
رو علی کی طرف ہی رکھ اس میںدرِ فردوس منھ پہ ہوگا باز
ہوسکے تو علی پرستی کرتو ہو اسلامیوں میں تو ممتاز
ہے علی وہ کہ چرخ و ماہ و مہراس کی قدرت پہ سب کریں ہیں ناز
محو یاد علی ہیں جو ان کونے سر سجدہ نے دماغ نماز
ہیں علی سے علی طلب شب و روزدوستی کشتگان قلب گداز
قبلہ، کعبہ، خدا، رسول، علیگفتگو شوق کی بہت ہے دراز
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
ہے علی جانشیں پیمبرؐ کازیب مسجد ہے حسن منبر کا
زور بازو سے اس کے کیا کہیےہے زباں زد فسانہ خیبر کا
کر گیا گم بڑوں بڑوں کے حواسچیرنا کودکی میں اژدر کا
جذب خورشید کس طرح سے کیاوقت کم تھا نماز دیگر کا
سرکشان جہاں نے جھاڑے کانسن کے احوال عمرو و عنتر کا
تیغ اس کی تھی برق ابر بہارکٹ گیا جس سے رنگ اکثر کا
بارش ابر لطف بن اس کےرفع کیا ہو غبار دل پر کا
کیا ہمارا شعور جو سمجھیںمرتبہ اس سبھوں سے برتر کا
عقل کل پر بھی کرنا مشکل ہےفرق ظاہر سے ایسے مظہر کا
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
ذات پاک اس کی ہے خدا کی ذاتجمع واجب کے اس میں سب ہیں صفات
علم و قدرت نہ بابت مذکوردم زدن یہ نہ جاے حلم و ثبات
وہ نہ ہوتا سبب تو پھر کیا تھاکیسے ہم تم کہاں کے موجودات
نہ تو دس عقل و نہ فلک ہوتےنہ ستارے نمود کرتے سات
حال روشن نہ روز کا ہوتارہتی تاریکی عدم سے رات
اس کے مقدم سے نور ہے ورنہسوجھتا کس کو ہاتھ سے پھر ہات
وہ مقوم سبھوں کا وہ سب کچھیہی کہنے کی ایک ہے گی بات
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
ہے مسبب کہیں کہیں ہے سببہے وہی لطف بے نہایت اب
ہے علی قابل پرستیدنہے علی مظہر ہزار عجب
عشق ہے ہم جو لیتے ہیں یوں نامورنہ سجدہ بھی یاں ہے ترک ادب
دم الطاف سبز روے زمیںجگر چرخ چاک وقت غضب
داب یکبارگی لیے دشمندب کیا تونے جس گھڑی مرکب
تو بنا پاے خاک میداں پراستخوان مزار کا مطلب
بارہا اے سوار شائستہابلق چرخ نکلا تجھ سے دب
ہے تو بندہ تو اے مرے معبودپر خدا کے سے ہیں ترے سب ڈھب
ہے تفنن کے طور پر یہ شعرآشنا اپنے لب سے روز و شب
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
ہے علی حامی و مقوّم دیںہے علی پیشواے اہل یقیں
ہے علی برگزیدۂ عالمہے علی اشرف زمان و زمیں
اس کی ہمت سے اس گلستاں میںجیسے شبنم پڑے ہیں در ثمیں
اس کی جرأت سے قشعریرہ ہےان کو جو ہیں گے شیر بیشۂ کیں
خوبی اس کی کہاں تلک کہیےخوب جانے جسے رسول امیں
اللہ اللہ تیری عزت و قدرمجلس انبیا کا صدر نشیں
جیتے جیتے ہمارے قلب پر ابنام اس کا ہے جیسے نقش نگیں
کبریا اس کی ہے وراے قیاسوہم اپنا گیا کہیں سے کہیں
مانو یہ بات اس کی قدرت سےنہیں بالقوۃ آدمی کا نہیں
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
سجدہ کرنے کے ہے علی قابلقبلہ اپنا ہے اس طرف مائل
مرگ ہے مصلحت سے دشمن کوبے ولا اس کے زیست کیا حاصل
درس میں تیرے اے شہ علامپیر عقل ایک کودک جاہل
تیری ہمت قبول یہ نہ کرےکہ مکرر ہلے لب سائل
اصل مطلب کو دوستی تیریراہ مطلوب کو ہے یہ واصل
دست بخشش سحاب بارندہکف ہمت محیط بے ساحل
سیر کر مجمع کمال تجھےدیکھ کر تیری قدرت کامل
طفل و برنا و پیر سارے مقرعقل و ادراک و فہم سب قائل
یہ عقیدہ نہیں ہے اپنا ہیکہتے ہیں سارے بالغ و عاقل
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
ہے علی سایہ گستر دوجہاںدیوے خورشید حشر سے وہ اماں
صورت ظاہر علی پہ نہ جاہے علی خلوتی راز نہاں
وہ علی کی ہے ذات پاک جسےجپتے رہتے ہیں اہل عالم جاں
کیا کریمی کی ہے صفت اللہنہیں ہے یہ نہیں یہی ہے یاں
شان ارفع ہے اپنے صاحب کیکام کرتے نہیں قیاس و گماں
ہے جہاں رتبۂ وجوب اس کاعقل کا درک وھاں ہے کیا امکاں
خوگر اس نام لینے سے جو نہیںحیف صد حیف وہ دہان و زباں
دونوں یکتا ہیں ذوالفقار و علیایسی شمشیر ہے نہ ایسا جواں
سب ہیں حیران منزلت اس کےقدر اس کی کہاں سپہر کہاں
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
ہے علی مدعا علی مقصودوہی مشہود ہے وہی موجود
ہے علی وہ کہ سارے صاحب دللیتے نام اس کا بھیجتے ہیں درود
کیا زمیں کیا سپہر کیا مہ و مہرکی علی کے لیے سبھوں نے نمود
جمع رکھ دل علی سبب ہوگاکیا ہے اسباب اگر ہوئے مفقود
بندگی کے مقام ہیں معلومہے یہ صاحب ہمارا تو معبود
مصطفےٰ مرتضےٰ خدا ہے ایکلیک آگاہ راز ہیں معدود
جھک ہی جاتے ہیں سر سن اس کا نامیعنی سب اس کو جانے ہیں مسجود
حشر ہوگا علی کے ساتھ اپناکیا ہے واں کا ہمیں غم بہبود
عندیہ اپنا اپنا ہے اے شیخگوش کر اس کو تو اچھل یا کود
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
گاہ بے گاہ کر علی خوانیہے علی دانی ہی خدا دانی
مہر کا اس کی رہ سرآشفتہہے ولاے علی مسلمانی
فرش راہ علی کر آنکھوں کویوں بچھا تو بساط ایمانی
مور بے زور ہو علی کا توکہ جہاں میں کرے سلیمانی
چاہ میں اس کی آپ کو گم کرتا کہیں تجھ کو ماہ کنعانی
ہے وہی مہر چرخ عرفاں کاہے وہی شاہ ظل سبحانی
قامت آراے کبریا حق کاچہرہ پرداز نور یزدانی
ہاتھ اس کا وہی خدا کا ہاتھبات اس کی کلام ربانی
شوق مفرط سے ہے یہ طرز سخنگو برا مانے کوئی مروانی
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
ہے علی یاں کا مالک و مختارآگہ کار واقف اسرار
ہے علی آفتاب سا روشنکچھ چھپا ہو تو کیجیے اظہار
ہے علی بہترین خلق خداہے علی خویش سید ابرار
کون اس کا مقر جود نہیںاس کی جرأت کا کس کو ہے انکار
یہ شرف کس میں جمع ہوتے ہیںاشرف و حر و سید و سردار
عہد کا فخر وقت کا سلطاںخوبی بزم و گرمی مضمار
تیغ برکف اگر نمود کرےوہی قہار ہے وہی جبار
حکم کے مرتبے میں ہو تو وہیپردہ پوش و غفور ہے ستار
عشق پیشوں کو اس کے کیا وسواسکہتے ہیں اور پھر کہیں سو بار
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا
ہے علی وہ بلندقدر امیردے دے ڈالے ہیں جس نے تاج و سریر
اس کی یکتائی میں تردّد کیاجس کا نکلا نہیں عدم سے نظیر
خاک در ہو شہ ولایت کاشاہیاں لے گئے ہیں یاں سے فقیر
یوں ہے در ریز دست جود اس کاجیسے برسے ہے کوئی ابر مطیر
صاحب ایسا ہی ہو تو صاحب ہےگنہ آمرز اور عذر پذیر
ہم سے بندوں کی ورنہ کیونکے نبھےدم بہ دم جن سے ہوتی ہے تقصیر
کچھ محبوں کا معتقد مت پوچھہے علی ہی ہوالعلی کبیر
شان سے کہتے ہیں محیط کلقدر سے قادر و خداے قدیر
تو موالی علی پرست نصیرچاہے سو ہم کو کہہ لے اب اے میرؔ
ہم علی کو خدا نہیں جانا
پر خدا سے جدا نہیں جانا[1]

حوالہ جات

  1. میر تقی میر، کلیات میر:ص760۔

مآخذ

  • میر تقی میر، کلیات میر، مطبع نامی منشی نو، لکھنؤ، 1941ء.