دیارِ ہو میں کھڑا ہوں فنا کا عالم ہے
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | خورشید رضوی |
قالب | غزل |
وزن | مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
موضوع | کربلا |
مناسبت | ماہِ محرم |
زبان | اردو |
دیارِ ہُو میں کھڑا ہوں فنا کا عالم ہے: یہ ڈاکٹر خورشید رضوی کی لکھا ہوا سلام ہے.
تعارف
اس سلام میں شاعر نے اشکِ عزا،راہ بقائے امام کربلا،دنیا کی بے بے وفائی،سانحۂ کربلا جاویدانی جسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
مکمل کلام
دیارِ ہُو میں کھڑا ہوں فنا کا عالم ہے | | |
بس ایک یاد میں آبِ بقا کا عالم ہے | ||
س ایک بوند میں سب کچھ ڈبوئے بیٹھا ہوں | | |
عجیب قطرۂ اشکِ عزا کا عالم ہے | ||
مجھے تو خون رلاتی ہے وقت کی رفتار | | |
قدم قدم پہ بدلتی ہوا کا عالم ہے | ||
ذرا میں ذہن پہ سایہ فگن ردائے رسول | | |
ذرا میں قافلۂ بے نوا کا عالم ہے | ||
ذرا میں راہب دوشِ نبی کا منظرِ پاک | | |
ذرا میں اک سرِ قرآں سرا جا عالم ہے | ||
کسی کے بعد یہ عالم ہے قریۂ جاں کا | | |
کہ زندگی دلِ بے مدّعا کا عالم ہے | ||
گزر کے بھی نہیں گزرا وہ سانحہ خورشید | | |
نفس نفس میں وہی کربلا کا عالم ہے [1] |
حوالہ جات
نسبتیں،ص92 و 93
- ↑ نسبتیں،ص92و93
مآخذ
خورشید رضوی،نسبتیں،کراچی،انٹرنیشنل نعت مرکز،مئی 2015ٰۓ