یہاں سے دور وہیں کربلا میں رہتا ہے

شیعہ اشعار سے

یہاں سے دور وہیں کربلا میں رہتا ہے

تعارف

یہ "سلام "جناب ڈاکٹر خورشید رضوی کے رشحاتِ قلم میں سے ہے،جسے سیدالشہداء امام حسین ع کے حضور انتہائی عقیدت کے ساتھ پیش کیا ہے،اس سلام میں انسانی زندگی پر انقلابِ کربلا کے اثرات کو استعارے کی زبان میں نہایت دلنشین انداز میں اجمالا بیان کیا گیا ہے۔

مکمل کلام

یہاں سے دور،وہیں کربلا میں رہتا ہے ​
ہنسوں بھی میں تو مرا دل عزا میں رہتا ہے
وہ انتہا تو رگِ جاں میں جوش مارتی ہے ​
مرا سخن تو ابھی ابتدا میں رہتاہے
بطاہر اس کو گزارا گیا فنا سے مگر ​
وہ نام چشمہؑ آبِ بقا میں رہتا ہے
مثالِ خضر سدا دستگیرِ دل زدگاں ​
حسین ساحلِ سیلِ بلا میں رہتا ہے
سارہ وار چمکتا ہے آسمانوں میں ​
اور اس کا علس دلِ آشنا میں رہتا ہے
نصیبِ اہل ِکدورت کہاں سراغ اس کا ​
وہ صرف سینہؑ اہلِ صفا میں رہتا ہے
کبھی جھلکتا ہے صحرا میں روشنی کی طرح ​
کبھی وہ لرزشِ بانگِ درا میں رہتا ہے
کبھی سفر میں کبھی منزلوں میں اس لی نمود ​
کبھی طلب میں کبھی کبھی مدعا میں رہتا ہے
ہر ایل شخص کے عزمِ بقا میں ہے زندہ ​
ہر اک ستم کی شکست و فنا میں رہتا ہے
زمانہ اس کی ابھی ابتدا کو چھو نہ سکا ​
کسے خبر کہ وہ کس انتہا میں رہتا ہے
مجھے تلاش میں جانا نیں پڑا اس کی ​
وہ میرے ذہن کی آب و ہوا میں رہتا ہے

حوالہ جات

نسبتیں،ص 96 و 97۔

مآخذ

ڈاکٹر خوشید رٖضوی،نسبتیں،کراچی،انٹرنیشنل نعت مرکز،مئی 2015ء