رئیس امامت
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | محسن نقوی |
قالب | مسدس |
وزن | مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات |
موضوع | امام حسن مجتبیٰ ؑ |
زبان | اردو |
تعداد بند | 16 بند |
ملکۂ عصمت: صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی شان میں حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا انتہائی خوبصورت کلام ہے۔
تعارف
اس مسدس کے ابتدائی مصرعوں میں اسم گرامی "فاطمہ زہراؑ" کے حروف کا مطلب عقیدت و تخیل کی زبانی بیان کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ جناب زہرا ؑ کی عظمت و منزلت کے بہت سے پہلوؤں خاص کر کے ان کی خاطر پیغمبر اکرم ؑ کا تعظیم کرنا، آپ ؑ کا مباہلہ میں شریک ہونااور شامل اصحاب کساء ہونا وغیرہ کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
مکمل کلام
لوحِ جہاں پہ فکر کی معراجِ فن کا نام | لکھا ہے پنجتن ؑ کی حسیں انجمن کا نام | |
سوچا خزاں کے عہد میں جب بھی چمن کا نام | آیا مِری زباں پہ اِمام حسن ؑ کا نام! | |
جس نے خدا کے دین کی صورت اُجال دی | ||
وحشی دلوں میں امن کی بنیاد ڈال دی | ||
سرچشمۂ نجاتِ بشر، حسنِ کردگار | انسانیت کے باغ میں پیغمبرِ بہار | |
حاجت روا، حَسیں، وہ اَنا مست بردبار | وہ اَمن و عافیت کی حکومت کا تاجدار | |
تشبیہ دوں کسی سے مِری کیا مجال ہے؟ | ||
بس اتنا کہہ رہا ہوں، حسن ؑ بے مثال ہے | ||
زہرا ؑ کا چاند، ابنِ علی ؑ، مصطفیٰ ؐ کا نور | جس کی جبیں سے پھوٹ رہی ہے شعاعِ طور | |
رقصاں ہے جس کی آنکھ میں ادراک کا سرور | جس کی ہر اِک ادا سے نمایاں نیا شعور | |
چپ رہ کے جس نے باگ حکومت کی موڑ دی | ||
کھولی زباں تو ظلم کی زنجیر توڑ دی! | ||
وہ مجتبیٰ ؑ وہ عالمِ لوحِ فلک مقام! | معراجِ فکر، سدرہ نظر، عرش احتشام | |
ایسا سخی، ملک بھی کریں جس کا احترام | دشمن سے بھی لیا نہ کبھی جس نے انتقام | |
جس نے دعائے غیر کو تاثیر بخش دی | ||
اپنے عدو کو اپنی ہی جاگیر بخش دی | ||
اللہ رے آب و تابِ رُخِ ابنِ بوتراب ؑ | اب تک خراج دے کے گزرتا ہے آفتاب | |
لوحِ جبیںِ وہ علمِ امامت کا ایک باب | رفتار میں وہ عدل کہ محشر بھی دے حساب | |
بازو ہیں اس طرح سے عطا پر تلے ہوئے | ||
جیسے فلک پہ صلح کے پرچم کھلے ہوئے | ||
کاکل کی تیرگی سے مکمل ہر ایک رات | چہرے کی چاندنی سے درخشاں ہے کائنات | |
دیتے ہیں جان، جنبشِ ابرو پہ معجزات | اَفشا ہے "رازِ کن" کہ کشادہ حسن ؑ کا ہات | |
ہیں شاخِ گل میں اوس کی بوندیں اڑی ہوئی | ||
یا زلفِ مجتبیٰ ؑ میں ہیں گرہیں پڑی ہوئی | ||
آنکھیں ہیں یا چراغ اَبد کی فصیل کے | پلکیں ہیں یا حروف لبِ جبرئیل کے | |
عارض ہیں یاکنول مہ و انجم کی جھیل کے | اعضا ہیں یا نقوش خیالِ جمیل کے | |
چہرہ حسن ؑ کا ہے کہ شبیہِ رسولؐ ہے | ||
عالم تمام نقشِ کفِ پا کی دُھول ہے | ||
یہ پھول پھول رنگ، طبیعت یہ باغ باغ | کونین پر محیط مزاجِ دل و دماغ | |
جس کی مئے اَنا سے پگھلنے لگے ایاغ | مہتاب حسنِ بندِ قبا سے ہے داغ داغ | |
جس کی مدد سے حق کی سدا برتری ہوئی | ||
جس کی قبا کو دیکھ کے دُنیا ہری ہوئی | ||
جو دلنشیں گریز کرے نام و ننگ سے | انساں کو تولتا نہ ہو تیر وتفنگ سے | |
جو آئینہ تراش لے وجدانِ سنگ سے | وہ اَمن آشنا، جسے نفرت ہو جنگ سے | |
صحرا، چمن کرے جو حدودِ چمن کے بعد | ||
ایسا کوئی بشر نہیں دیکھا، حسن ؑ کے بعد | ||
جس کا سلوک، خلقِ نبیؐ کا سلام لے | حق دے کے جو عدو سے حقیقی مقام لے | |
دستِ اجل سے ہنس کے جو رختِ دوام لے | اِک جنبشِ قلم سے جو پرچم کا کام لے | |
سلطانئ بہشت جسے کردگار دے | ||
وہ کیوں نہ تاج و تخت کو ٹھوکر پہ مار دے | ||
ٹکرائے گا حسن ؑ سے کہاں کوئی بے نسب | یہ وجہِ ذوالجلال ، وہ اِبلیس کا غضب | |
حیدر ؑ کہاں، کہاں کوئی فرزندِ بنتِ شب | زہرا ؑ سے کیا ملے کوئی حَمّالۃَ الحَطب | |
بیعت کی بحث ہی سرِ محفل فضول ہے | ||
وہ پیکرِ خطا تو یہ ابنِ رسول ؐ ہے | ||
گردِ خزف کجا، رُخِ دُرِّ نجف کجا | قطرہ کجا، یہ قلزمِ کوثر بکف کجا | |
دَریوزہ گر کجا، شہِ عالی شرف کجا | کنکر کجا، یہ جوہرِ حُسنِ صدف کجا | |
"تحت الثریٰ" کو ہمسرِ عرشِ عُلیٰ کہوں؟ | ||
دنیا، تِرے ضمیر کی پستی کو کیا کہوں؟ | ||
اے شہسوارِ دوشِ پیمبر مِرے امام | اے والئ بہشتِ بریں، رحمتِ تمام | |
تُونے پیا ہے زہر سے لبریز غم کا جام | تجھ کو غرورِ عظمتِ سقراط کا سلام | |
انساں کو آشتی کا قرینہ سکھا دیا | ||
تُو نے دلوں کو چین سے جینا سکھا دیا | ||
عالم میں ہے نجاتِ بشر کی نوید تُو | محشر میں بابِ خلدِ بریں کی کلید تُو | |
دو بار راہِ حق میں ہوا ہے شہید تُو | جنت تو کیا ہے، عرشِ معلّیٰ خرید تُو | |
کیا زہر کم تھا، تلخ کلامی کے واسطے؟ | ||
اَب تیر آرہے ہیں سلامی کے واسطے | ||
کیوں بجھ گیا چراغ نبیؐ کے مزار کا؟ | کیوں رنگ اُڑ گیا ہے غمِ روزگار کا؟ | |
بڑھتا ہے اضطراب دلِ سوگوار کا | پردے میں شور کیوں ہے کسی پردہ دار کا؟ | |
پھر زخم ہو گیا کوئی تازہ، الٰہی خیر! | ||
پھر گھر کو آرہا ہے جنازہ، الٰہی خیر!! | ||
زہرا ؑ کے لال ، تیرے چمن کو مِرا سلام | تیری ہر اِک اُداس بہن کو مِرا سلام | |
عباسؑ کی جبیں کی شکن کو مِرا سلام | چھلنی بدن کو، سرخ کفن کو مِرا سلام | |
صدمہ تِرا بہت ہے شہِ مشرقین ؑ کو | ||
پُرسہ میں دے رہا ہوں امامِ حسین ؑ کو[1] |
حوالہ جات
- ↑ محسن نقوی، فرات فکر: ص102
مآخذ
- محسن نقوی، میراثِ محسن، لاهور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.