نگہبان رسالت
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | محسن نقوی |
قالب | سلام |
وزن | فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن |
موضوع | عزاداری اور اہل عزا |
زبان | اردو |
تعداد بند | 13 بند |
نگہبانؑ رسالت ؐ حضرت ابوطالب ؑ کی شان میں معروف شاعر حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا کلام ہے۔
تعارف
اس مسدس کے کل اشعار کی تعداد 13 ہیں جو 78 مصرعے بنتے ہیں۔ محسن نقوی کی رشحات قلم کا یہ شاہکار، حضرت ابوطالب ؑ کی شان میں اردو کے نمائندہ کلام کا درجہ رکھتا ہے۔
مکمل کلام
وہ حقیقی مردِ مؤمن، پیکرِ عزم و ثبات | جس نے ٹھوکر سے الٹ دی بولہب کی کائنات | |
ضامنِ عزمِ پیمبر ؐ بن گئی جس کی حیات | جس کے بچوں کی وراثت تھے جہاں کے معجزات | |
جس نے رکھ لی آبرو انسانیت کے نام کی! | ||
جس نے لُٹ کر پرورش کی ناتواں اسلام کی | ||
جس کی آغوشِ محبت میں پلی پیغمبری | جس نے بخشی آدمیت کو فلک تک برتری | |
دفن کردی جس نے استبداد کی غارت گری | بت تراشی، بت پرستی، بت نوازی، بت گری | |
جس نے بخشی تھی تجھے توقیرِ عرفاں یاد کر | ||
اے بنی آدم ابوطالب ؑ کے احساں یاد کر | ||
شیخ بطحا، ناصرِ دیں، سیّدِ عالی نسب | بحرِ علم و فضل و شہرِ جُود و معیارِ ادب | |
پالیے جس نے رموزِ آدمیت بے طلب | جس کی ہیبت سے لرزتے تھے خدوخالِ عرب | |
وہ سخی جو اسخیاء میں مثل اپنی آپ تھا | ||
وہ بہادر جو شجاعت میں علی ؑ کا باپ تھا | ||
وہ نبوت کا مصدِّق وہ اُخوت کا مدار | جس نے بخشا ضعفِ انسانی کو یزداں کا وقار | |
وہ مزاجِ آشتی کی سلطنت کا تاجدار | جس کی نسلوں میں نہاں تھی قوت پروردگار | |
حوصلہ جس کا مزاجِ عزمِ سرور ؐ ہوگیا | ||
جس کی شہ رگ کا لہو پھیلا تو حیدر ؑ ہوگیا | ||
جس کے چہرے پر فروزاں تھی شجاعت کی شفق | جس کی آنکھوں میں رواں تھی آدمیت کی رمق | |
جس کی پیشانی تھی تاریخِ صداقت کا ورق | وہ ابوطالب جسے مطلوب تھا عرفانِ حق | |
جس نے سینے سے لگایا حادثوں کو جھوم کر | ||
چھا گیا جو زندگی پر موت کا منہ چوم کر | ||
وہ نگہدارِ محمد ؐ، وہ نگہبانِ حرم | وہ جھلستے ریگزاروں کے لیے ابرِ کرم | |
وہ عرب زادوں کے لہجے میں انیسِ محترم | وہ شبستانِ رسالت میں چراغاں کا بھرم | |
آیۂ تطہیرہے جس کے گھرانے کے لیے | ||
جس کی نسلیں کٹ گئیں حق کو بچانے کے لیے | ||
جس کے سنگِ در پہ جھکتی ہو زمانے کی جبیں | جس کا پیکر ہو پیمبر ؐ کی صداقت کا امیں | |
جس کی قربت میں سکوں پائے امام المرسلیں | وہ بھٹک جائے رہِ حق سے؟ نہیں، ممکن نہیں | |
اُس کی ہستی کو خدا کی شان کہنا چاہیے | ||
اُس کی جاں کو محورِ ایمان کہنا چاہیے | ||
جس نے ہر مشکل میں کی ہو وارثِ دیں کی مدد | جس کی گردِ پا کو چومے فاطمہ ؑ بنتِ اسدؑ | |
جو علی ؑ سے مہدئ دیں ؑ تک امامت کی ہو جد | جس کے بیٹے کو ملی ہو "کُلِّ ایماں" کی سند | |
کون کہتا ہے کہ اُس کے دل میں جذبِ دل نہ تھا؟ | ||
کون کہتا ہے کہ وہ خود مؤمنِ کامل نہ تھا؟ | ||
جس کے لب سرچشمۂ اعجازِ صد حمد و درود | جس کے لہجے میں خمارِ آیۂ حق کا ورود | |
جس کا پیکر جلوۂ صد رنگ کی جائے نمود | توڑ ڈالیں جس نے عصرِ جہل کی ساری قیود | |
جس کی صہبائے تفکر عافیت آمیز تھی | ||
جس کے احساسِ اَنا کی لَو قیامت خیز تھی | ||
جس کی پیشانی کا بل، موجِ غرورِ کردگار | جس کے ابرو کی کماں ہو گردشِ لیل و نہار | |
وہ یداللہ کا پدر، وہ مصطفےٰ ؐ کا افتخار | جس کو دھرتی پر ملا ہو مفلسی میں اقتدار | |
جس کے پوتے کا زمیں پر مقتدیٰ عیسیٰ ؑ بنے | ||
کیا کہوں محشر میں اُس کا مرتبہ کیا کیا بنے؟ | ||
وہ شعور و علم و حکمت کا حقیقی امتزاج | جس کے فرقِ ناز پر جچتا ہو سرداری کا تاج | |
یہ بھی کیا کم ہے، بشر کی آدمیت کا مزاج | آج تک "شعبِ ابی طالب" کو دیتا ہے خراج | |
کس کو اندازہ ہے اُس کی عظمتِ ایمان کا | ||
بانئ اسلام ؐ خود ممنون ہے عمران ؑ کا | ||
اے مؤرخ وقت کے مغرور کرداروں سے پوچھ! | پوچھ، تاریخِ عرب کے سب ستمگاروں سے پوچھ! | |
کربلا میں ٹوٹتی بے لوچ تلواروں سے پوچھ! | شام کی گلیوں سے، چوراہوں سے، بازاروں سے پوچھ! | |
ذرّیت کس کی یزیدی حوصلوں پر چھا گئی؟ | ||
کس کی پوتی ظلم و استبداد سے ٹکرا گئی؟ | ||
بول اے تاریخ کے زندہ اصولوں کی زباں | کس کے بام و در سے ٹکراتی رہی ہیں بجلیاں؟ | |
کون باطل کے مقابل آج تک ہے کامراں؟ | سوئے کوفہ پابجولاں تھا وہ کس کا کارواں؟ | |
کس نے صدموں کو صدا دی حق پسندی کے لیے؟ | ||
کس گھر اجڑا تھا دیں کی سربلندی کے لیے؟[1] |
حوالہ جات
- ↑ محسن نقوی، موجِ ادراک: ص15
مآخذ
- محسن نقوی، میراثِ محسن، لاهور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.