تجھ کو دیارِ غیر کی آب و ہوا پسند
تجھ کو دیارِ غیر کی آب و ہوا پسند حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا لکھا ہوا سلام ہے۔
تعارف
سلام کے ان اشعار میں سید محسن نقوی نے ایک خدا پسند اور خود پسند انسان کی پسند نا پسند کا تقابل پیش کیا ہے یعنی جو خدا پسند ہوگا اسے کربلا، خاکِ شفا، راہِ نجف کی خوشبو، محبت علی ؑ کی شراب، سید الشہدا کا نقش قدم اور غم حسین ؑ میں رونا پسند آئے گا۔ اس کلام میں "انا پسند" اور "انتہا پسند" جیسی اصطلاحوں کا بہت خوبصورت استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔
مکمل کلام
تجھ کو دیارِ غیر کی آب و ہوا پسند | میں کیا کروں کہ مجھ کو ہے کرب و بلا پسند | |
میری سرشت تجھ سے جدا ہے بہر زماں | یعنی تو خود پسند ہے، میں ہوں خدا پسند | |
"ضربت" پہ خلد، "نیند" پہ مرضی نثار کی | خالق کو مرتضیٰ کی ہے اِک اِک ادا پسند | |
ہر دم وہ دم ہے پھر دم عیسیٰ ؑ کی آبرو | اِک بار آگئی جسے خاکِ شفا پسند | |
شبیر ؑ کی "نہیں" پہ دو عالم کی "ہاں" نثار | ایسا بھی کون ہوگا جہاں میں اَنا پسند | |
خوشبو رہِ نجف کی ہمیں یوں عزیز ہے | جیسے مسافروں کو وطن کی ہوا پسند | |
خیبر شکن سے پوچھ قناعت کا بانکپن | ورنہ کسے ہے نانِ جویں سی غذا پسند | |
حُبِ علی ؑ کی مے کو جہاں سے چھپا کے رکھ | یہ جنس وہ ہے جس کو کریں انبیاء پسند | |
اس کم سنی میں یوں صفِ اعداء سے انتقام | اصغر ؑ تو ابتدا میں ہوا "انتہا پسند" | |
خواہش ہے ، چاند کی بھی پرستش کروں کبھی | اتنا ہے، اے حسین ؑ تِرا نقشِ پا پسند | |
دنیا مِری ہنسی نہ اڑائے تو کیا کرے؟ | مجھ کو خوشی میں بھی ہے یہ رونا بڑا پسند | |
ثابت ہوئی یہ بات دیارِ دمشق میں | زینب ؑ خدا کے دیں کو ہے تیری رِدا پسند | |
سایہ فگن ہے سر پہ مِرے پرچمِ حسین ؑ | مجھ کو نہیں ہے سایۂ "بالِ ہُما" پسند[1] |
حوالہ جات
- ↑ محسن نقوی، موجِ ادراک: ص 149
مآخذ
- محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.