میر تقی میر

شیعہ اشعار سے

میر تقی میر (1723ء- 1810ء) اردو کے نامور شاعر ہیں جن کی شاعری کا سکّہ ہر دور میں جما رہا ہے۔ اگرچہ ان کا خاص میدان غزل ہے، لیکن انہوں نے اردو کے چھ دیوان مرتب کئے ہیں جن میں غزلوں کے علاوہ قصائد، مثنویاں، رباعیات اور واسوخت وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔

مختصر سوانح حیات

میر تقی میر (1723ء- 1810ء) نام "محمد تقی" ، تخلص "میر" جو میر تقی میر کے نام سے مشہور ہیں۔ 1723ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام "محمد علی" تھا، لیکن"علی متقی" کے نام سے مشہور تھے۔ میر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی مگر مزید تعلیم سے پہلے جب میر ابھی نو برس کے تھے وہ چل بسے تب ان کے بعد ان کے والد نے خود تعلیم و تربیت شروع کی۔ مگر چند ماہ بعد ہی ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہاں سے میر کی زندگی میں رنج و الم کے طویل باب کی ابتدا ہوئی۔ ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے اچھا سلوک نہ کیا۔ تلاش معاش کی فکر میں دہلی پہنچے اور ایک نواب کے ہاں ملازم ہو گئے۔ مگر جب نواب موصوف ایک جنگ میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے۔ لیکن گزر اوقات کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ چنانچہ دوبارہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنے خالو سراج الدین آرزو کے ہاں قیام پذیر ہوئے۔ سوتیلے بھائی کے اکسانے پر خان آرزو نے بھی پریشان کرنا شروع کر دیا۔ کچھ غم دوراں، کچھ غم جاناں سے جنوں کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ میر کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ ہم عصروں کی مخالفت، دہلی کی تباہی وبربادی، احباء و اعزا کی جدائی اور آئے دن کی مصیبت نے میر کو نہ صرف دلبرداشتہ بلکہ عزلت گزین اور صحیح معنی میں گوشہ نشین بنا دیا اسی لیے وہ گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنؤ روانہ ہو گئے۔ وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ نواب آصف الدولہ کے دربار میں ان کی بڑی قدر ومنزلت ہوئی، لیکن وہ اس قدر دانی کے باوجود بھی دہلی کو ہمیشہ لکھنؤ پر ترجیح دیتے تھے۔ زندگی کے آخری تین برس میر کے لیے حشر آفریں ثابت ہوئے ، جوان بیٹی ، بیٹے اور اہلیہ کی یکے بعد دیگرے رحلت نے ان کو دل شکستہ کردیا اور ان کے ہوش و حواس میں ایک وارفتگی سی آگئی۔ آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ نوے (90) سال کی عمر پا کر 1810ء میں لکھنؤ کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔[1]

حوالہ جات

  1. آسی، مقدمہ کلیات میر

مآخذ

  • میر تقی میر، کلیات میر، مطبع نامی منشی نو، لکھنؤ، 1941ء.