مریمِ کربلا حضرت زینب ؑ کی شان میں حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا خراج عقیدت ہے۔

مریمِ کربلا
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبمسدس
وزنمفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
موضوعحضرت زینب ؑ بنت علی ؑ
زباناردو
تعداد بند17 بند

تعارف

اس مسدس میں حضرت زینب ؑ کی شخصیت اور خدمات کو زبردست انداز میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ منجملہ بھائی کے ساتھ ساتھ اصولوں پر استقامت دکھانے، پیغام حسینیت کو دنیا تک پہنچانے، قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود حق کی آواز بلند کرنے اور ذوالفقار علی ؑ کی للکار بن کر آتشیں خطبوں سے دشمن کو زیر کرنے جیسے اوصافِ جلی کو حسیں پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔

مکمل کلام

زینب ؑ، نبیؐ کا ناز، امامت کی آبروجس کے شرف کی دھوم ہے عالم میں چار سُو
شرم و حیا کی جھیل، شرافت کی آبجوجبریل جس کا نام نہ لیتا ہو بے وضو!
وہ جس کا ذکر سن کے فضا عطر بیز ہے
تعظیم دیکھنا کہ قلم سجدہ ریز ہے
بزمِ نساء کی صدر، مصائب میں حق شناسجس کی رِدا تھی دیں کے لیے خمس میں لباس
جس کا وجود، حق کے ارادوں کا اقتباسکوثر کی موج بن گئی جس کے لبوں کی پیاس
جو لٹ کے بھی وجودِ خدا کی دلیل تھی
اپنی صداقتوں کی جو تنہا دلیل تھی
مہکا گئی جو اپنے چمن کو کلی کلیجس نے حسینیت کو سجایا گلی گلی
کانٹوں بھرے سفر میں جہاں تک چلی چلیلیکن سکھا گئی ہے جہاں کو علی ؑ علی ؑ
اسلام بچ گیا یہ اسی کا کمال ہے
ورنہ خدا کے دیں کا تعارف محال ہے
ہر چند اُس کے باغ کی ہر شاخ جھڑ گئیلیکن مثالِ برق ہواؤں سے لڑ گئی
بھائی کے ساتھ ساتھ اصولوں پہ اَڑ گئیزینب ؑ ضمیر سنگ میں آئینے جڑ گئی
بھائی سے یوں بہن نے تڑپ کر علَم لیا
آخر یزیدیت کو فتح کر کے دَم لیا
طاعت میں بے مثال ، شجاعت میں بے بدلقدموں میں بھی ثبات، ارادوں میں بھی اَٹل
سیرت میں بُردبار، بصیرت میں بے خللمعیار باوقار تو گفتار بر محل
انساں کو زندگی کا قرینہ سکھا گئی
زینب ؑ حسینیت کو بھی جینا سکھا گئی
اللہ رے عزم و ہمتِ بنتِ شہِ نجفحالات غم بجاں تھے تو جذبات سر بکف
ہر چند ریزہ ریزہ تھا احساس کا صدفپھر بھی بصد خروش چلی شام کی طرف
ظلمت کو عکسِ صبحِ درخشاں بنا دیا
پاؤں کے آبلوں کو گلستاں بنا دیا
زنداں میں حریت کے دریچوں کو وا کیاہر فرضِ کردگار اُجڑ کر ادا کیا
اسلام کو حسین ؑ سا بھائی عطا کیاپھر یہ پوچھتے ہو کہ زینب ؑ نے کیا کیا
دیں کی خزاں کو تھی جو ضرورت بہار کی
زینب ؑ نے ہنس کے چادرِ زہرا ؑ نثار کی
پردے میں رہ کے ظلم کے پردے اُلٹ گئیپہنی رسن تو ظلم کی زنجیر کٹ گئی
نظریں اُٹھیں تو جبر کی بدلی بھی چھٹ گئیلب سی لیے تو ضبط میں دنیا سمٹ گئی
بولی تو پتھروں کو پگھلنا سکھا گئی
انساں کو لغزشوں میں سنبھلنا سکھا گئی
مریمؔ مزاج ، عرش مکاں، آسماں قدمعصمت مآب، خلد زمیں، کہکشاں حرم
زہرا ؑ شعور، حاجرہ خو، مصطفیٰؐ حشمخالق صفت، کلیم زباں، مرتضیٰ ؑ کرم
بہرِ ستم یہ صبر کی شمشیر بن گئی
زینب ؑ دیارِ شام میں شبیر ؑ بن گئی
دیکھا جو کربلا میں دلِ دیں کا انتشارنکلی نیامِ خیمہ سے شمشیرِ کردگار
ملنے لگا زمیں میں تشدد کا اقتدارمجبور ہو کے رہ گیا شاہی کا اختیار
حملہ کیا تو کر گئی اعلانِ عام بھی
تا حشر اب نہ لے کوئی بیعت کا نام بھی
روحِ وفا، مزاجِ حیا، پیکرِ حجابوہ جس کے سائے سے بھی گریزاں تھا آفتاب
لیکن گہن میں دیکھ کے زہرا ؑ کا ماہتابآیا کچھ اس طرح سے طبیعت میں انقلاب
بعد از حسین ؑ صبر کی عکاس بن گئی
بنت ِ علی ؑ جلال میں عباس ؑ بن گئی
گرتے ہوئے علَم کو سنبھالا کچھ اس طرحبھائی کے خوں سے دیں کو اُجالا کچھ اس طرح
تاجِ شہی فضا میں اچھالا کچھ اس طرحنطق پدر میں لہجے کو ڈھالا کچھ اس طرح
ہر بات ذوالفقار کی جھنکار بن گئی
پردہ نشیں تھی حیدر کرار ؑ بن گئی
طے ہو چکے جو صبرِ مسلسل کے مرحلےدیکھو وہ لب ہلے وہ کھُلے دیں کے مسئلے
چونکے خمارِ خواب سے مدت کے ولولےزینب ؑ جگا رہی ہے سرِ شام زلزلے
آواز گونجتی ہے جو عرشِ برین پر!
جبریلؔ پر بچھائے ہوئے ہے زمین پر!
لوگو! زمیں بھی ہم ہیں، فلک بھی فضا بھی ہمحق آشنا بھی، خالق حق کی رضا بھی ہم
لوح و قلم بھی ہم ہیں، قدر بھی قضا بھی ہمعادل بھی ہم، قسیم جزا و سزا بھی ہم
دیکھو ہمیں کہ ہم ہی رخِ ذوالجلال ہیں
پہچان لو کہ ہم ہی محمدؐ کی آل ہیں
سوچو کجا یہ رنج و محن اور ہم کجادیکھو کجا یہ طوق و رسن اور ہم کجا
لوگو کجا یہ سرخ کفن اور ہم کجابولو! کجا یہ بھیڑ، گھٹن اور ہم کجا
پوچھو، مِرے چمن کے شگوفے کدھر گئے؟
کتنے یتیم تھے جو سفر میں ہی مر گئے؟
یہ بے رِدا اَسیر محمدؐ کے گھر کے ہیں!سارے ہی تشنہ لب ہیں اور آٹھوں پہر کے ہیں
مہمان کچھ یتیم یہاں رات بھر کے ہیںپاؤں میں آبلے بھی اَبھی تک سفر کے ہیں
تحریر کس طرح کی یہ لوحِ جہاں پہ ہے
منبر پہ بے نماز ، نمازی سناں پہ ہے
کھلنے لگی وہ بات جو اب تک تھی راز میںآیا جو زلزلہ سا ضمیرِ حجاز میں
یہ احتجاج بارگہِ بے نیاز میں!یا رب! سرِ حسین ؑ کٹے اور نماز میں
یہ کہہ کے جب حسین ؑ تو دیکھا تو رُک گئی!
زینب ؑ خموش ہوکے سکینہ ؑ پہ جھک گئی![1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، موجِ ادراک: ص131

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.