ماتم کرو کہ عظمتِ انساں اداس ہے حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا معروف سلام ہے۔

ماتم کرو کہ عظمتِ انساں اداس ہے
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبسلام
وزنمفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
موضوعاُداسی
زباناردو
تعداد بند11 بند

تعارف

اس سلام میں محسن نقوی نے واقعہ کربلا، زندانِ شام اور جنت البقیع کے مختلف مناظر سے پیدا ہونے والی اداسی کی منظر کشی کی ہے اور مقطع میں ماہ محرم کی آمد کے ساتھ دلوں پر چھا جانے والی اداسی کو قبرستانوں پر پھیلی ہوئی اداسی کے ساتھ موازنہ کیا ہے۔

مکمل کلام

ماتم کرو کہ عظمتِ انساں اُداس ہےدن ڈھل چکا ہے، شامِ غریباں اُداس ہے
لاشِ حسین ؑ دھوپ کے صحرا میں دیکھ کردوشِ رسولؐ، تختِ سلیماں اُداس ہے
شبیر ؑ تیرے آخری سجدے کی یاد میںبے چین ہے نماز، تو قرآں اُداس ہے
وہ کون دو شہید ہیں جن پر ستم کے بعدخنجر کی دھار، تیر کا پیکاں اُداس ہے
یہ کس کی ہچکیوں سے شہیدوں کے ساتھ ساتھمقتل کے آس پاس بیاباں اُداس ہے
کن بیبیوں کے سوگ میں کوفہ کے ساکنو!گلیاں ہیں شرمسار، چراغاں اُداس ہے
گونجے کہیں سے خطبۂ شبیر ؑ پھر کہیںاے کردگار گردشِ دوراں اُداس ہے
کس بے کفن یتیم کے مدفن کے واسطےاب تک غلاف سایۂ زنداں اُداس ہے
اِک اشک آنکھ میں ہے بیادِ بتولِ پاکیا جنت البقیع کا دَرباں اُداس ہے
سجاد ؑ کے بدن پہ ہیں زخموں کے کچھ نشاںشاداب ہوکے بھی یہ گلستاں اُداس ہے
محسن طلوعِ ماہِ محرّم کے ساتھ ہیہر دل مثال شہرِ خموشاں اُداس ہے[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، فراتِ فکر: ص152

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.