شام غریباں: شاعر حسینیت قیصر بارہوی کے مقبول ترین مرثیوں میں سے ایک ہے ۔

تعارف

بہتر بندوں پر مشتمل یہ مسدس "مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن" کے وزن پر لکھا گیا ہے۔ یہ مرثیہ 1974ء میں معرضِ تخلیق میں آیا جو قیصر بارہوی کے مجموعہ مراثی "عظیم مرثیے" میں زیور طبع سے آراستہ ہوا۔

مکمل کلام

پھر خیمہ نگاہ سے تازہ دھُواں اُٹھاپھر کاروانِ فکر سے شور فغاں اُٹھا
دل کی زمیں سے درد کا اِک آسماں اُٹھاپھر ہر نفس کیساتھ غمِ بیکراں اُٹھا
ہیں گرم آنسوؤں میں سمندر ملال کے
پانی پہ چل رہے ہیں سفینے خیال کے
غالب ہے رُوح پر وہ قیامت کہ الحذرجیسے ابھی لٹا ہو کسی بے وطن کا گھر
اک سمت جشن فتح کے باجے شباب پر اک سمت سر کھلے ہوئے ناموس نوحہ گر
لشکر میں شور خلعت و انعام کے لئے
نیزوں پہ کچھ چراغ جلے شام کے لئے
سُنتا ہوں اضطراب کہ صحرا کی سائیں سائیںجیسے یتیم بچوں کی سہمی ہوئی صدائیں
نوحہ سُنا رہی ہیں تڑپتی ہوئی فضائیںجیسے رسولؐ زادیاں بالوں سے مُنہ چھپائیں
یوں دیکھتا ہوں عرش کی تقدیر خاک پر
جیسے بچھی ہو چادر تظہیر خاک پر
تاریکیوں کا فرش اُجالوں کی میتیںوہ میتیں جو غیرت انساں کی سرحدیں
طوفاں سُپرد عظمتِ آدم کی مشعلیںبربادیوں کی چھاؤں میں کعبے کی رونقیں
مفہوم کہہ رہا ہے غموں کے بیان کا
گیتی نے پی لیا ہے لہو آسمان کا
قلبِ سحر میں شام کا خنجر لہو لہوسورج کی قتل گاہ کا منظر لہو لہو
پامال بے کفن مہ و اختر لہو لہوتاراجیِ خیام بھرا گھر لہو لہو
نظروں میں انتہائے الم کا مقام ہے
آنسو تھکے ہوئے ہیں غریبوں کی شام ہے
فطرت سے پوچھتا ہوں یہ کیسے غریب ہیںکس کے حرم ہیں کس کے پریشاں نصیب ہیں
چہرے تو کہہ رہے ہیں خُدا سے قریب ہیںپھر ان پہ کیا بنی ہے جو سب سے عجیب ہیں
ہونٹوں پہ آیتوں کا خزینہ لئے ہوئے
بیٹھے ہیں بیکسی کا مدینہ لئے ہوئے
معصوم بندگی کا مہکتا ہوا چمنگویا خدا کی حمد میں گلزار پنجتن
معراجِ غم پہ شکر میں ڈھلتے ہوئے سخنمعلوم ہو رہے ہیں محمدؐ کے خوش دہن
ہر سانس کے وجود میں قراں سمیت ہیں
کردار کہہ رہا ہے یہی اہل بیت ہیں
پیشانیوں کی خاک میں سجدوں کی داستاںجیسے خُدا کے پیار کی تابندہ کہکشاں
تسبیحِ فاطمہؑ سے عبادت نوازیاںجیسے پیمبروں ؐ کی دعائیں بجسم و جاں
اشکوں کے ساتھ ساتھ جو تکبیر ہوتی ہے
مظلومیت میں دین کی تعمیر ہوتی ہے
بے پردگی کے بوجھ سے اُٹھتی نہیں نظرآنکھیں نثار ہوتی ہیں اِک اک شہید پر
مقتول وارثوں کی طرح عالمِ جگربرچھی کی شکل سینے میں مستقبلِ سفر
خیموں کی راکھ یوں ہے کھلے سر ڈھکے ہوئے
قُراں کو جیسے گرد کی چادر ڈھکے ہوئے
دریا کا قُرب چلتے ہوئے زخم تشنگیدہشت کی لہر کانپتا ماحول بے بسی
دشمن کے تازیانے زمانے کی بے رُخیچاروں طرف ستم کی کہانی لکھی ہوئی
یہ منظرِ الم جو نگاہوں پہ چھا گئے
اِک بے وطن کو اہل حرم یاد آ گئے
اُبھرا بساط ذہن پہ میدان کربلاچمکی لہو کی برق پہ عنوان کربلا
ظاہر ہوئی شہادت مہمان کربلااب سامنے ہے شام غریبانِ کربلا
تاریخ رو رہی ہے یہ سرخی لئے ہوئے
سیدانیاں ہیں خون کے آنسو لئے ہوئے
مانندِ نبض ڈوبتے لمحَات کی قسم بڑھتا گیا تلاطمِ عاشور دم بدم
آخر زبانِ عصر سے گونجی صدائے غممعصُوم کائنات کا سر ہو گیا قلم
خیر البشر کے سینے سے خنجر گزر گیا
مقتل میں فاطمہؑ کا صحیفہ بکھر گیا
پانی کی طرح بہہ گیا خون رسولؐ پاکبرچھی سے مرتضیٰ کا کلیجہ ہوا ہے چاک
آندھی چلی حدیقۂ زہراؑ میں دردناکوحدت کی لالہ زار ہوئی کربلا کی خاک
ذرّے عروج پا گئے فخر کلیم سے
صحرا میں جان پڑ گئی ذبحِ عظیم سے
دیکھا نہیں نگاہِ فلک نے یہ انقلابکوئی دکھائے اس غم و اندوہ کا جواب
گیتی پہ ہے نشیب میں فرزندِ بوترابؑیا دامنِ بتول ؑ میں خوں رنگ آفتاب
پہلو میں اقربا کے ہیں لاشے پڑے ہوئے
یا خاتمِ وفا پہ نگینے جڑے ہوئے
مظلوم کے لہو میں نہائے ہوئے ہیں تیراسلام کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں تیر
قراں کو ہر طرف سے چھپائے ہوئے ہیں تیرانسانیت کا جسم اُٹھائے ہوئے ہیں تیر
وحدت کو یہ ادائے شہادت پسند ہے
نیزے پہ سر ہے لاش زمیں سے بلند ہے
کس بانکپن سے حمد کا پیکر ہے سرخروجیسے ہوئی ہو بندہ ہو آقا میں گفتگو
آواز دے رہی ہے بریدہ رگِ گلوکس نے کیا ہے خون جگر بند سے وضو
کافر بھی مان لیں گے صداقت نماز کی
اب سجدۂ حسینؑ ہے عظمت نماز کی
کوئی نہیں جو لاش سے ناوک جدا کرےکوئی نہیں جو غسل و کفن بے وطن کو دے
تدفین کیلئے تو کوئی کلمہ گو اُٹھےکوئی نہیں جو بنت نبیؐ کی دُعائیں لے
قرآں کو غم ہے حافظ قرآں خموش ہیں
اسلام رو رہا ہے مسلماں خموش ہیں
اپنے لہو میں تیر گیا آج وہ بشرسجدے کریں گے اہلِ وفا جسکی خاک پر
طے کر گیا وہ عشق کے شعلوں کی رہگذرجو تشنگی سے توڑ گیا موت کی کمر
پیغمبری کا حُسن تھا جس کی اداؤں میں
وہ سر فروش سو گیا زخموں کی چھاؤں میں
کس نے کہا چراغ بُجھا اہل بیتؑ کااب تو شفق نے نام لکھا اہل بیتؑ کا
باقی رہے گا درس بقا اہل بیتؑ کادیں اہل بیتؑ کا ہے خدا اہل بیتؑ کا
یہ غم نہ مٹ سکے گا دِل مشرقین سے
اب مصطفیٰؑ کا نام چلے گا حسینؑ سے
مستقبل حیات سنائے گا اب یہ حالمشکل کشائے دین خُدا ہے علیؑ کا لال
صحرا میں جس غریب کی میت ہے پائمالاَب حشر تک اِسی کی کہانی ہے لازوال
کلمہ پڑھیں گے راہ خدا کے شہید کا
اہل شعور نام نہ لیں گے یزید کا
مقتل کی لازوال شفق میں حیات ہےمظلومیت کی سرخ ورق میں حیات ہے
وحدت پسند نظم و نسق میں حیات ہےعاشور کربلا کے سبق میں حیات ہے
سیراب عقل و ہوش ہیں پیاسے فرات کے
اب تذکرے رہیں گے حسینیؑ ثبات کے
جس کے عمل نے جبر کے بازو کئے ہیں شلجسکی حسامِ صبر نے کاٹا سرِ اجل
جس کے بدن نے موڑ دئیے برچھیوں کے پھلجس کی نظر نے چھین لئے ابروؤں سے بل
اس کا بیاں تصور ہستی پہ چھائے گا
اب سیدہؑ کا لال بہت یاد آئے گا
اب ظُلم کے خلاف اُٹھیں گے جوان و پیراب سر کشی سے زیر نہ ہو گا کوئی ضمیر
ہتھیار کے پہاڑ ہوں یا لشکر کثیراب ظالموں کی موت ہے مظلومیت کا تیر
حق آشنا دِلوں اُتر جائے گا حسینؑ
چھپ جائے آفتاب نظر آئے گا حسینؑ
اب دیکھ لیں گے دولت دنیا کے فتنہ گرسرچشمۂ شرافت و عظمت ہے کس کا گھر
دھرائیں گے یہ بات سفیران خشک و تراولاد مصطفیٰؐ سے منور ہیں بحر و بر
بدلیں گے رنگ مشغلۂ شورشین کے
پانی سے اَب چراغ جلیں گے حسینؑ کے
لاشوں پہ رقص کر چکے وحشت نما سوارفریاد کر کے بیٹھ گیا دہشت کاغبار
مولیٰ کے ساتھ ساتھ مولائی ہیں تار تاربرباد گلستاں ہے تو اجڑی ہوئی بہار
قربانیوں کے رنگ حسینی چمن میں ہیں
یا ایک ساتھ چاند ستارے گہن میں ہیں
گردوں کا چاند کہتا ہے پہنے ہوئے کفنماتم کناں ہے میرے ستاروں کی انجمن
ٹکڑے ہوئے ہیں آج جو معصُوم گُلبدنزخموں سے چاک ہو گیا فطرت کا پیراہن
کوئی ضیاء نہیں ہے کوئی بندگی نہیں
جب فاطمہ کا چاند نہیں چاندنی نہیں
یہ کہہ کے رو رہی ہے ندامت بھری فراتپیاسی شہید ہو گئی زہراؑ کی کائنات
لکھی ہے کربلا نے وہ تاریخ حادثاتحیران جس پہ ساری خدائی کے واقعات
تاروں کو حقِ جلوہ فشانی نہیں ملا
انسانیت کے پھولوں کو پانی نہیں ملا
یہ بات کہہ کے چھپ گیا مغرب میں آفتاباب شام کا نصیب ہے اور مستقل عذاب
دنیا مٹا سکے گی نہ یہ رنگِ انقلابمظلوم نے کیا ہے اندھیروں کا سدِ باب
پنپے گی اب نہ شام کی ظلمت زمانے میں
قائم رہے گی صبح رسالت زمانے میں
چھوٹی سی ایک قبر سُناتی ہے بار بارمجھ کو عطا کیا تھا مسافر نے شیرِ خوار
بھالے چبھو کے لئے گئے ظالم وہ گلعذاربچے کو ذبح کر کے ہنسے ہیں ستم شعار
نیزے پہ آشکار جو ننھا گلاب ہے
باغ حسینیتؑ کا مکمل شباب ہے
سجدوں میں کہہ رہے ہیں یہ جلتے ہوئے خیامیارب کہاں یہ آگ کہاں خانۂ امام
حکم خدا سے فرض ہوا جن کا احتراماُن آیتوں کو لوٹنے آئی سپاہ شام
خالق نے جن کو خلعتِ عصمت عطا کیا
نامحرموں نے آج اُنھیں بے ردا کیا
تپتی ہوئی زمیں کے اشارے میں دم بہ دمخیموں کی گرم خاک ہے اور مجلسِ حرم
ایسا کوئی چمن ہے نہ ایسی بہار غممقتل بنی ہوئی ہے یتیموں کی چشمِ نم
میدان میں پڑے ہوئے لاشے نظر میں ہیں
دُروں کا ہے خیال طمانچے نظر میں ہیں
یادوں میں سن رہی ہے کوئی صبح کی اذاں جھولے کو دیکھتی ہے کوئی سوگوارماں
غالب کسی کے ذہن پہ مشکیزہ و نشاںآنکھوں سے کوئی ملتی ہے عابد کی بیڑیاں
ملتے ہیں کتنے حادثے تصویر آہ میں
بھائی کے خشک لب ہیں بہن کے نگاہ میں
چھائی فضائے دشت پہ جب یہ صدائے غماُٹھی تڑپ کے خاک سے اک پیکر الم
اسلام کا حصار بنی جنبش قدم ہاتھوں کو مل گیا اسدؑ اللہ کا بھرم
ہمت بڑھی حسینؑ کے احساس کی طرح
زینبؑ کو جوش آ گیا عباسؑ کی طرح
چادر کی فکر بچوں کے رُخسار کی خراشخود اپنے نونہالوں کی فرقت کا ارتعاش
قاسم کا جسم پھول کی مانند پاش پاشماں جائے کا تڑپتا بدن نوجواں کی لاش
یہ سب خیام ایک ہی منظر میں آ گئیں
زینبؑ کو احتجاج کا پیکر بنا گئیں
سینے کے داغ حوصلۂ تشنگاں ہوئےزخموں کے پھُول عزم و عمل کی زباں ہوئے
آنسو نئے سفر کے لئے کہکشاں ہوئےاکبرؑ کا نام لے کے ارادے جواں ہوئے
دشوار تھی جو راہ وہ آسان ہو گئی
اصغرؑ کی یاد فتح کا عنوان ہو گئی
کہنہ لباس بھائیؑ کی رخصت نگاہ میںرخصت کے وقت جملۂ وصیت نگاہ میں
وہ آخری سلام کی نوبت نگاہ میںتازہ لہو خضاب کی صورت نگاہ میں
لیکن علاج گردش تقدیر بن گئیں
زینب غم حسینؑ کی تاثیر بن گئیں
لیلیٰؑ کی فکر بیوۂ عباسؑ پر نظربے چینیاں ربابؑ کی آغوش دیکھ کر
سینے میں درد زوجۂ مسلمؑ کے حال پراشکوں کی آگ مادر قاسمؑ کی چشم تر
طوفان رنج دامنِ دل میں چھپا لیا
زینبؑ نے خود کو صبر مجسم بنا لیا
کلثومؑ کی برستے ستاروں سے گفتگوکانوں سے اک یتیمؑ کے بہتا ہوا لہو
اشکِ عروس وہبؑ میں قلب وفا کی بوکچھ بییبوں میں گود کے پالوں کی جستجو
کل واقعات اپنی نظر میں بسا لئے
زنیبؑ نے سب کے غم تن تنہا اٹھا لئے
اُٹھے مزاج صبر سے جرأت کے ولولےپیدا ہوئے کمال خطابت کے ولولے
مجبوریاں نہیں جو قیادت کے ولولےدوڑے لہو میں حفظِ امامت کے ولولے
جیسے حسینؑ آتے تھے آئیں اسی طرح
عابدؑ کے سر پہ ہاتھ رکھا باپ کی طرح
طوق گراں کو دیکھ کے آئے جبیں پہ بلہتھکڑیاں دیکھ لیں تو کہا زندگی سنبھل
اب خاک ہوں گے شام کے نخوت بھرے محلیہ ظلم ہے حکومتِ مغرور کی اجل
بنت علیؑ شہیدوں کی آواز ہو گئی
زینبؑ کی جنگ آج سے آغاز ہو گئی
جشن طرب میں لشکر اعدا کو دیکھ کرمقتل میں روح سید بطحا کو دیکھ کر
چاروں طرف قیامت صحرا کر دیکھ کرعباسؑ کے خیال میں دریا کو دیکھ کر
خود ہی جو آ گئے تھے وہ آنسو نکل گئے
زہراؑ کی نور عینؑ کے تیور بدل گئے
مانند شب مصیبتِ پیہم کی ایک جھیلہر سمت آسماں کی طرح درد کی فصیل
ہر سانس زندگی کے لئے نوبت رحیلایسی فضا میں جرأت زینبؑ کی سلسبیل
عہد سلف کا آئینہ حیران ہو گیا
بحرُالالم کا واقعہ قرباں ہو گیا
مریم سرشت قلب جگر حاجرہ مثالمعصومیِ نگاہ میں آیات کا جمال
مقصد کی تیغ جذبۂ خیرانساء کی ڈھالزخمی کمر سے باندھے ہوئے اِنّما کی شال
یہ طرز جنگ حرمتِ قرآں کے واسطے
پیغمبری ہے عالمِ نسواں کے واسطے
بالوں نے خاک ہو کے بنائی نقاب رُختطہیر کے حجاب نے رکھا حجاب رُخ
رومالِ ہل اتیٰ نے چھپائی کتاب رُخغیظ ابوتراب سے نکھرا گلابِ رُخ
خوف و ہراس کٹ گئے سیف خیال سے
پلکوں نے اشک پی لئے رعبِ جلال سے
ہر وسعت نگاہ رسالت اثر ہوئیقائد بنی صداقت عمراں کی روشنی
حاصل ہوئے شعور کو انداز جعفریشبیر ؑ کے اُصول کی تلوار باندھ لی
پرچم دیا جو فتحِ خیبر کے نام نے
چومے قدم ارادہ تسخیرِ شام نے
سہمی فضا لرزنے لگے ظلمتوں کے بامبنیاد جبر ہل گئی ٹوٹا غرور شام
زینبؑ نے زندگی سے کیا اس طرح کلاماب دیکھنا غریب کا خاموش انتقام
تکمیل صبر و ضبط ہے بیٹی بتولؑ کی
شبیرؑ بن گئی ہے نواسی رسولؑ کی
دیکھا نگاہِ ارض و سما نے یہ ماجراحیدرؑ کی لاڈلی ہوئی تقدیر کربلا
ماتھے کی سلوٹوں سے کھلا عقد بقانظریں اُٹھا کے جانبِ یثرب یہ کہہ دیا
اّماں شکستہ ناؤ کی پتوار دیکھ لو
زنیبؑ ہے آج قافلہ سالار دیکھ لو
قلب و نظر کو محو شہیداں کئے ہوئےبے چارگی کو درد کا درماں کئے ہوئے
ہر سانس کو مقابل طوفاں کئے ہوئےقبضے میں اپنے گردش دوراں کئے ہوئے
سب غمزدوں کو پاس بُلا کر بٹھا لیا
بچوں کو پیار کر کے گلے سے لگا لیا
کلثوم سے کہا مجھے دیکھو میری بہنمیں بھی تو ہوں مسافر و مظلوم کی بہن
باقی بہت ہے مرحلۂ زندگی بہنآغازِ انقلاب ہوا ہے ابھی بہن
سنبھلو خدا کے دیں کی بھلائی کے واسطے
ان آنسوؤں کو روک لو بھائی کے واسطے
اٹھو بہنؑ تحملِ بنتِ نبیؐ دکھاؤشبیرؑ کی بہنؑ ہو مصیبت میں مسکراؤ
مغموم بھاوجیں ہیں گلے سے اِنہیں لگاؤعابدؑ بخار میں ہے ذرا اس کے پاس جاؤ
زہراؑ کے مہ لقا کی ضیاء اور کون ہے
اب وارثوں میں اس کے سوا اور کون ہے
پھر کچھ خیال آتے ہی دیکھا اِدھر اُدھراُٹھے قدم جلے ہوئے خیموں پہ کی نظر
خیمے کی ایک چوب جو دیکھی زمین پریا بو ترابؑ کہہ کے اُٹھائی بہ کرّ و فر
دل سے کہا جیئے مرا عابدؑ مروں گی میں
اُجڑے ہوئے چمن کی حفاظت کروں گی میں
کاندھے پہ چوب خیمہ کو رکھ کر کہی یہ باتیہ مرحلہ بھی دیکھ لو اے فاتحِ فرات
کل تم اسی طرح سے تھے پھر تے تمام راتاب میں ہوں اور غریبوں کی چھوٹی سی کائنات
منزل بڑی کٹھن ہے جگر تار تار ہے
عباسؑ اب تمہاری بہنؑ پہرہ دار ہے
مقتل کی سمت گیسوؤں والے کو دی صدااے نور عین یوسف کنعان کربلا
انداز دیکھو اپنی پھوپھیؑ کے جہاد کاہاتھوں میں چوب خیمہ ہے اور سر کھلا ہوا
زینبؑ نہیں یتیموں کی اک پاسبان ہے
اکبرؑ یہ امتحان بڑا امتحان ہے
اک گوشہ زمیں کی طرف دیکھ کر کہابچو تمہیں بتاؤ یہ کیا حادثہ ہوا
صدقہ اتارنے سے بھی زینبؑ کو کیا ملااماّں کا باغ لُٹ گیا بھائیؑ نہیں رہا
دیکھ تو آ کے عونؑ و محمدؑ کہاں ہوں میں
کیوں مجھ سے بے خبر ہو تمہاری تو ماںؑ ہوں میں
قاسمؑ کی یاد آتے ہی یاد آ گئے حسنؑنظروں میں پھر گئی وہ لہو سے بھری لگن
تھا سامنے بھتیجے کا بکھرا ہوا بدننکلے زبانِ پاک سے برجستہ یہ سخن
ہر سمت ٹکڑے ٹکڑے ورق زندگی کا ہے
بیٹاؑ تمہاری طرح کلیجہ پھوپھیؑ کا ہے
ناگاہ پاس آ کے یہ فضہؑ نے کہہ دیااے وارث شرافت زہراؑ غضب ہوا
گم ہو گئی امانتِ مظلومِؑ کربلاکیا جانے کس طرف گئی معصومؑ مہ لقا
بچی ہے اس اندھیرے میں دہشت سے مر نہ جائے
جلدی تلاش کیجے سکینہؑ گزر نہ جائے
یہ سنتے ہی تڑپ گئیں زہراؑ کی یادگارتاریکیوں کو دیکھ کر بولیں بہ اضطرار
اے رات ہم غریبوں کی دولت سے ہوشیارصحرا میں کھو نہ جائے شہیدوں کی سوگوار
سناٹا بڑھ رہا ہے قیامت بپا نہ ہو
اے رات ہم سے پیاری سکینہؑ جدا نہ ہو
تارو خیال رکھنا وہ رستہ نہ بھول جائےکمسن ہے تیز چلنے میں ٹھوکر کہیں نہ کھوئے
اے آسماں طمانچہ نہ کوئی اسے لگائےمعصومؑ بے پدر ہے پریشاں نہ ہونے پائے
اولاد فخرِ خضر ہے صحرا خبر رکھے
عباسؑ کی بھتیجی ہے دریا خبر رکھے
اتنا کہا تو جانب مقتل اُٹھے قدمقربان ہر قدم پہ ہوئی شدت الم
لاشوں کے ساتھ جوش میں آئی فضائے غمعابدؑ پکارے کس لئے اب جی رہے ہیں ہم
اپنی پھوپھیؑ کے کام بھتیجاؑ نہ آ سکے
چھوٹی بہنؑ کو ڈھونڈنے بھائیؑ نہ جا سکے
زینبؑ قریب گنج شہیداں جو آ گئیںآواز دی کہاں ہو میری غمزدہ حزیں
مرتی ہے بنت فاطمہؑ کیوں بولتی نہیںلپٹی ہو کس کی لاش سے اے میری مہ جبیں
دشمن ہے وقت سانس بھی خنجر کی دھار ہے
آواز دو سکینہؑ پھوپھی بے قرار ہے
اُٹھیں جو ایک سمت سے معصوم ہچکیاںبے تاب ہو کے ثانی زہراؑ گئیں وہاں
دیکھا تو ایک لاش ہے مانند گلستاںجیسے لہو میں ڈوب کے نکھری ہو کہکشاں
بچیؑ ہے اشکبار سر لاش اِس طرح
بکھرے ہوئے گلاب پہ شبنم ہو جس طرح
زینبؑ نے چشم ضبط سے دیکھا یہ حال غمآغوش میں اُٹھا کے یہ پوچھا بصد الم
بیٹی بتاؤ تم کو اِسی لاش کی قسمکیسے یقیں ہوا کہ یہی ہیں شہِ اُمم
تنہا اندھیری شب میں یہاں کیسے آ گئیں
بیٹیؑ بتاؤ لاش پدرؑ کیسے پا گئیں
بچی نے تھر تھراتے لبوں سے کیا کلامکب ختم ہو گی اے پھوپھی اّماں یہ غم کی شام
چلتی تھی بابا جان کی گردن پہ جب حساماس وقت آپ نے ہی بتایا تھا یہ مقام
ٹیلے پہ چڑھ کے آپ نے دیکھا تھا اس طرف
بابا کا سر بھی نیزے پہ اُبھرا تھا اس طرف
کیا پوچھتی ہیں آپ سکینہؑ کا حال زارلایا ہے اس مقام پہ مجھ کو پدر کا پیار
یہ خون کی کشش تھی جو کہتی تھی بار باراس لاش کو گلے سے لگانے میں ہے قرار
پہچانتی کہاں جسد پاکؑ دیکھ کر
مجھ کو یقین آ گیا پوشاک دیکھ کر
بچی کے اس بیان پہ زینبؑ کے دل کا حالہمت کی انتہا کہوں یا صبر بے مثال
ماحول قتل گاہ نے اتنا کیا سوالکیا اس طرح بھی ہوتا ہے زخموں کا اندمال
اُمت کہاں پہ آل محمدؑ کو لائی ہے
کیا ایسی کوئی رات کسی گھر پہ آئی ہے
آخر لبِ نگاہ سے میت کو چوم کرزینبؑ چلیں سکینہ کو لیکر بچشم تر
آئیں وہاں جہاں تھا اسیروں کا مستقربیمارؑ نے جھکا دیا سجدے میں اپنا سر
سجدے سے سر اُٹھا کے نہ روئے نہ آہ کی
عابدؑ نے آسماں کی طرف اک نگاہ کی
ایسی نگاہ شکر کا محور کہوں جسےشکوؤں کے بدلے حمد الہیٰ میں لب ہلے
سوکھی ہوئی زباں سے یہ جملے ادا کئےتو جس پہ خوش ہو اے مرے مولیٰ وہ صبر دے
غالب رہیں غموں پہ غریبانِ کربلاؑ
یا رب ترے سُپرد یتیمانِ کربلاؑ
اتنے میں اک طرف سے ہوئی روشنی عیاںجس روشنی سے سینوں میں اُٹھنے لگا دھواں
لشکر سے آئی زوجہ حُرؑ سوئے بیکساںآب و غذا کی بات ہوئی محشر فغاں
دل پھٹ گئے ستم کی نشانی کو دیکھ کر
پیاسوں نے منہ پھرا لئے پانی کو دیکھ کر
لیکن کمال ضبط سے بیمارؑ نے کہالازم ہے سب کے واسطے اب حرمتِ غذا
پانی پئیں تمام بصد شکر کبریاہر حال میں عزیز ہے اللہ کی رضا
ڈر ہے کوئی قدم سبب خودکشی نہ ہو
ہاں اہل بیتؑ شانِ وفا میں کمی نہ ہو
مجبور ہو کے سب نے جو دیکھا سوئے طعامتصویر اشک بن گئے مقتول تشنہ کام
آیا لب ربابؑ پر اک بے زباں کا ناملیلیٰ کو یاد آ گیا اپنا مہِ تمام
ایسے میں بے قرار کلیجے کو تھامنے
عباسؑ پھر رہے تھے سکینہؑ کے سامنے
زینبؑ کے دستِ پاک پہ آیا جو ظرفِ آبمانجائے کے گلے سے ملا دل کا اضطراب
خاموش اک سوال تھا خاموش اک جوابلیکن بتا گیا یہ تقاضائے انقلاب
جینا پڑا جو مقصدِ شبیرؑ کے لئے
زینبؑ نے پانی پی لیا تشہیر کے لئے
قیصرؔ بیانِ شام غریباں محال ہےتحریر کر سکے کوئی انساں محال ہے
لائے جواب گردش دوراں محال ہےیوں بھی کسی کا گھر ہو پریشاں محال ہے
ہر زندگی کو ظلم سے لڑنا سکھائے گی
اب تا بہ حشر شامِ غریباں نہ جائے گی[1]

حوالہ جات

  1. قیصر بارہوی کے مرثیے: ص299

مآخذ

  • شبیہ الحسن، سید، ڈاکٹر، قیصر بارہوی کے مرثیے، لاہور، اظہار سنز، 2007ء۔