خود نویدِ زندگی لائی قضا میرے لیے
خود نویدِ زندگی لائی قضا میرے لیے: جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر انیس |
قالب | سلام |
وزن | فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلاتن فاعِلن |
موضوع | انسان کی قسمت |
زبان | اردو |
تعداد بند | 12 بند |
تعارف
اس سلام کا آغاز ایک ناقابل انکار حقیقت سے ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی ہی موت کے پیش خیمہ ہوتی ہے، لیکن قسامِ ازل نے ہر ایک کی قسمت الگ الگ بنائی ہے اور شاعر کو اپنی قسمت پر بہت ناز ہے کہ اسے رب العزت نے کربلا، خاکِ شفا، عزت و آبرو، اولاد صالح، جاہ و منصب الغرض سب کچھ دیا ہے اور عطاؤں کی بارش کرکے اس کے دامن کو درِ مقصود سے بھر دیا ہے۔
مکمل کلام
خود نویدِ زندگی لائی قضا میرے لیے | شمعِ کشتہ ہوں، فنا میں ہے بقا میرے لیے | |
زندگی میں تو نہ اِک دم خوش کیا ہنس بول کر | آج کیوں روتے ہیں میرے آشنا میرے لیے | |
کنجِ عزلت میں مثالِ آسیا ہوں گوشہ گیر | رزق پہنچاتا ہے گھر بیٹھے خدا میرے لیے | |
تو سراپا اجر اے زاہد! میں سرتاپا گناہ | باغِ جنت تیری خاطر، کربلا میرے لیے | |
کہتے تھے شہؑ ، سخت ہے تیغِ گلو کا مرحلہ | یہ بھی مشکل سہل کردے گا خدا میرے لیے | |
آبرو و مال و فرزندانِ صالح ، عزّ و جاہ | کس کی خاطر یہ ہوا ؟ جو کچھ ہوا میرے لیے | |
بھر دیا دامن کو مولا نے دُرِ مقصود سے | زر دیا زر پر ، عطا پر کی عطا میرے لیے | |
نام روشن کر کے کیونکر بجھ نہ جاتا مثلِ شمع | ناموافق تھی زمانے کی ہوا میرے لیے | |
ہر نفس آئینۂ دل سے یہ آتی ہے صدا | خاک تو ہو جا ، تو حاصل ہو جلا میرے لیے | |
بھیج دے جنت میں یا دوزخ میں ، ہاں! مجرم تو ہوں | تو ہے عادل جو مناسب ہو سزا میرے لیے | |
اے مہوس اپنی اپنی قسمت اس میں رشک کیا | کیمیا تیرے لیے ، خاکِ شفا میرے لیے | |
خاک کو ہے خاک سے اُلفت ، تڑپتا ہوں انیسؔ | کربلا کے واسطے میں، کربلا میرے لیے[1] |
حوالہ جات
- ↑ رضوی،روح انیس: ص239
مآخذ
- رضوی، سید مسعود الحسن، روح انیس، الٰہ آباد، انڈین پریس لمیٹڈ، بی تا.