تمامی حجت کی خاطر امام: میر تقی میر دہلوی کا مرثیہ مربع ہے۔

تمامی حجت کی خاطر امام
معلومات
شاعر کا ناممیر تقی میر
قالبمربع
وزنفَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعَل
موضوعاتمام حجت و شہادت امام حسین ؑ
مناسبتروز عاشورا
زباناردو
تعداد بند35 بند

تعارف

اس مرثیے میں میر نے حضرت امام حسین ؑ کے فوجِ اشقیاء کے سامنے اتمام حجت کو بیان کیا ہے۔ جناب علی اصغر ؑ کو ساتھ لے جاکر امام ؑ کے ارشاد کردہ خطبات کا تذکرہ کرتے ہوئے آخر میں آپ ؑ کی شہادت اورخیام کی تاراجی کا بھی ذکر کیا ہے۔

مکمل کلام

تمامی حجت [1]کی خاطر، امام
لگا کہنے رو کر سوئے اہل شام
کہ اے قوم! یہ طفلِ اصغر بنام
مَرے ہے مِری گود میں تشنہ کام
نہ کوئی مرا یار و یاور رہا
نہ قاسمؑ رہا ہے نہ اکبر ؑرہا
جسے دیکھتا ہوں سو وہ مر رہا
مرے اقربا تم نے مارے تمام
یہ کرتا ہوں پیمان میں تم سے اب
کہ ناموس اپنے اٹھاؤں گا سب
کسو اور[2] جاؤں گا چھوڑا عرب
حبش، ہند اپنا کروں گا مقام
نہ دعویٰ کروں گا قیامت کو بھی
کیا پیشکش میں امامت کو بھی
گوارا کیا سب ملامت کو بھی
نہ یاں کی مصیبت کا واں لوں گا نام
کس[3] و گو کو اپنے لیے جاؤں گا
نبیؐ کا نواسا نہ کہلاؤں گا
جو قسمت میں ہوگا سو واں کھاؤں گا
بدل ڈالوں گا اپنا، حیدر کا نام
مسافرعرب نام رکھوں گا میں
کسو سے نہ کچھ کام رکھوں گا میں
قدم آگے ہر گام رکھوں گا میں
کہیں کر رہوں گا سحر اپنی شام
ادھر سے ادھر ہی کروں گا سفر
نہ جانے گا کوئی چلا ہے کدھر
کروں گا وطن کی نہ جانب نظر
کیا میں مدینے کو یاں سے سلام
رفیق اور یاور ہوئے سب تلف
ہوا تیغ کا میرا کنبہ علف [4]
نہ سجاد ؑبن کوئی اب ہے خلف
سو اس خستہ کو تپ رہے ہے مدام
امام اپنا گو مجھ کو مت جانو تم
علی ؑکے نہ رتبے کو پہچانو تم
خدا کو تو اے قوم ٹک[5] مانو تم
کہ بندے کے ہاتھ آوے پانی کا جام
گئے خویش و فرزند سب دردناک
ہوئے میرے بھائی جگر سینہ چاک
رہا میں سو ہوں مستعدِّ ہلاک
گیا خاک میں مل مرا احتشام
گرے کٹ کے یک لخت لخت جگر
گئے مارے یعنی عزیز و پسر
لڑائی تلک جمع تھے وے گہر
لڑی ٹوٹی اب وہ گیا انتظام
ستم جو کیا تم نے ہم نے سہا
مرے اقربا میں نہ کوئی رہا
کمینوں نے کیا کیا نہ منھ پر کہا
رہا کچھ نہ جب پھر کیا احترام
خرابے سے بدتر ہوا میرا باغ
گئے پھول کُل، مجھ کو دکھلا کے داغ
کیا خوش نوا طائروں نے فراغ
نپٹ[6] شورِ زاغاں [7]سے ہے دھوم دھام
مروت کرو ٹک دم آب دو
کہ تسکین دل ہووے اس طفل [8]کو
مرا کینہ اس بے خبر سے نہ لو
نہ اس سے رکھو کچھ غم انتقام
سنی سب نے یہ خونچکاں گفتگو
سروں کو کیا شرم سے ٹک فرو
مگر اک سیہ کار ہو روبرو
لگا کہنے کیا ہے یہ طول کلام
کہاں بات کرنے کی فرصت ہے یاں
دم آب موقوف بیعت[9] ہے یاں
ہے مہلت جو کچھ ہے غنیمت ہے یاں
ہمیں قتل و غارت کا ہے اہتمام
نہ باتیں کر اتنی لڑائی ہے اب
یزید اور عمر [10]کی دہائی ہے اب
بہم سب نے سوگند کھائی ہے اب
کہ دیں آب تو ہم پہ کھانا حرام
اگر آب ہو جائے سارا جہاں
نہ معلوم ہو کچھ زمیں کا نشاں
تجھے بوند پانی نہ دیں اے جواں
مگر تو اطاعت کرے لاکلام
یہ سن رکھ کہ ہم لوگ ہیں لشکری
نہ جانیں ہیں دیں کو نہ پیغمبری
ہمیں کوئی کچھ دے کرے سروری
اشارت کرے تو کریں قتل عام
بس اب گفتگو، وقت فرصت نہیں
لڑائی ہے یاں کوئی صحبت نہیں
بہت آب پر تیری قسمت نہیں
یہی منھ پہ کہنا یہی ہے پیام
روایت ہے واں اک فرنگی بھی تھا
ہوا گوش زد اس کے یہ ماجرا
سبھوں سے مخاطب ہو ان نے کہا
یہ ہے کون اے مردمِ زشت فام!
کہا ایک نے برگزیدہ ہے یہ
محمدؐ کا نورِ دودیدہ ہے یہ
ہوا کیا جو آفت رسیدہ ہے یہ
علی ؑکا ہے فرزند، خود ہے امام
وہ بولا کہ اے قوم! جاہل ہو تم
شریر و سیہ کار و باطل ہو تم {{{2}}}
سب اس شخص کے خوں کے مائل ہو تم{{{2}}}
کہو جس کو فرزند خیر انام [11]{{{2}}}
نبی زادہ ہے تشنگی سے نڈھال
تمھیں اس کے جی مارنے کا خیال
عتاب اس پہ کرتا ہے ہر بدخصال
خطاب اس سے کرتا ہے اب ہرکدام [12]
رہے دین و آئین و خلق و ادب
عجب! اے محمدؐپرستاں، عجب!
سب اس کے پئے خون ہو بے سبب
سبب جس کے، دیں کا تمھارے قیام
اہانت ہو عیسیٰ کے خر کی جہاں
کریں لوہو نصرانی اپنا رواں
رہے تیغ خوں خوار ہی درمیاں
نہ ہو واں کا جس دم تلک انہدام
کیا ہے عمل تم نے وہ اختیار
نہ جس کو کریں کافران تتار
رہے گا ستم یہ بہت یادگار
ہوئے ہو سزاوار طعن دوام
عبث دیں کو برباد تم نے کیا
محمدؐ کے منھ سے نہ کی کچھ حیا
کسو سے بھی دنیا کرے ہے وفا
طمع تم سیہ باطنوں کی ہے خام
ہوا واقعہ پھر سو جانیں ہیں سب
ستم گذرا ایسا کہاں اور کب
قیامت،غضب، قہر، رنج و تعب
ہوا بیکسانہ تمام اس کا کام
اٹھایا [13]جبیں پر جو زخم سناں
ہوا خاک پر خون ازبس رواں
جھکا پشتِ زیں سے امامِ زماں
گئی چھوٹ مرکب کی کف سے لگام
غش آیا لہو جو بہت سا گیا
جھکا یعنی سجدے کا مائل ہوا
سر و تن ہوئے اتفاقاً جدا
نہ چالیس دن تک ہوا التیام[14]
مُندی آنکھ شہ کی ہوا طَور اور
ستمگار کرنے لگے جَور اور
گیا وہ زمانہ ہوا دَور اور
گیا سوے سجادؑ وہ اژدہام
لگا آگ خیمے جلانے لگے
پدرمردہ [15]کو کھینچ لانے لگے
ستائے ہوؤں کو ستانے لگے
کھلے سر گئے مردمان [16]خیام
جگر میں بھری آگ آنکھوں میں آب
مرض سے بدن کے تعب کی نہ تاب
قدم کانپتے راہ چلنا شتاب
بندھے ہاتھ میں اشتروں کی زمام [17]
نظر سوئے اہل حرم دم بدم
بہت باپ کے مرنے کا دل میں غم
مصیبت بہت، جان میں تاب کم
دکھ اس کا کہیں میرؔ کیا ہم غلام[18]

حوالہ جات

  1. آخری دلائل
  2. طرف
  3. ہالی موالی
  4. مویشیوں کا چارا
  5. ذرا
  6. نہایت
  7. لشکرِ دشمن کے لیے استعارہ ہے۔
  8. مراد جناب علی اصغر ؑ
  9. یزید کی بیعت یعنی اس کی اطاعت کی طرف اشارہ ہے۔
  10. عمر بن سعد جو کربلا میں یزیدی لشکر کا سپہ سالار تھا۔
  11. افضل ترین انسان، مراد رسول اسلامؐ
  12. ہرکس و ناکس
  13. اس مرثیہ کی ابتدا جناب علی اصغر ؑ کے حال سے ہوئی تھی، چنانچہ ان کی شہادت کے بعد امام علیہ السلام کی شہادت کا تذکرہ ہونا چاہیے تھا۔ واقعہ نگاری میں یہ بے ربطی یا تو کسی بھول کی وجہ سے ہوگئی ہے یا درمیان کے بند امتدادِ زمانہ کی وجہ سے تلف ہوگئے ہیں۔
  14. مراد یکجائی۔ مشہور ہے کہ شہادت کے چالیس دن بعد امام حسین ؑ کا سر کربلا لایا گیا اور لاش کے ساتھ دفن کیا گیا۔
  15. حضرت عابد ؑ(سید سجادؑ)
  16. اہل بیت امام ؑ سے مراد ہے۔
  17. لگام
  18. سید مسیح الزماں، مراثی میر: پہلا مرثیہ، ص49

مآخذ

  • سید مسیح الزماں، مراثی میر، لکھنؤ، انجمن محافظ اردو ، 1951ء.