انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو: خدائے سخن جناب میر انیس کا لکھا ہوا "سلام" ہے۔
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر انیس |
قالب | سلام |
وزن | مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فِعْلن |
زبان | اردو |
تعداد بند | 13 بند |
تعارف
میر انیس جوانی میں ہی غزل گوئی سے دستبردار ہو چکے تھے اس کے باوجود بعض جگہوں پر پیش نظر کلام کو "غزل" کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کی شاید یہ وجہ ہو کہ ان کے اکثر اشعار اپنی سادگی اور سوز وگداز کی کیفیت کے باعث تغزل میں ڈھلے ہوئے ہیں اس لیے غزل اور سلام کے اشعار میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس کلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے مقطع کا دوسرا مصرع "انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو" اسی طرح "خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو" جیسے اشعار اردو زبان میں محاورے کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔
مکمل کلام
سدا ہے فکر ترقی بلند بینوں کو | ہم آسمان سے لائے ہیں ان زمینوں کو | |
پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو | خیالِ صنعتِ صانع ہے پاک بینوں کو | |
لحد میں سوئےہیں چھوڑا ہے شہ نشینوں کو | قضا کہاں سے کہاں لے گئی مکینوں کو | |
یہ جھریاں نہیں ہاتھوں پہ ضعف پیری نے | چنا ہے جامۂ اصلی کی آستینوں کو | |
لگا رہا ہوں مضامین نو کا پھر انبار | خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو | |
بجا ہے اس لیے اکبر سے تھا حسینؑ سے عشق | کہ دوست رکھتا ہے اللہ بھی حسینوں کو | |
غضب ہے اہلِ ستم اُس میں جائیں درّانہ | جس آستاں پہ ملائک رکھیں جبینوں کو | |
نظر میں پھرتی ہے وہ تیرگی وہ تنہائی | لحد کی خاک ہے سُرمہ مآل بینوں کو | |
بشر کو چاہیے دُنیا میں اُس کے حسن سے عشق | کہ جس نے خلق میں پیدا کیا حسینوں کو | |
غلط یہ لفظ، وہ بندش بری،یہ مضموں سُست | ہنر عجیب ملا ہے یہ نکتہ چینوں کو | |
لگا وغا میں ٹپکنے لہو جو قبضے سے | چڑھا لیا شہ والا نے آستینوں کو | |
دہانِ کیسہ زر بند کر پر اے منعم! | خدا کے واسطے وا کر جبیں کی چینوں کو | |
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم | انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو[1] |
حوالہ جات
- ↑ رضوی،روح انیس: ص244
مآخذ
- رضوی، سید مسعود الحسن، روح انیس، الٰہ آباد، انڈین پریس لمیٹڈ، بی تا.