اللہ ہو اللہ ہو
اللہ ہُو اللہ ہُو اس معروف حمدیہ کلام کے شاعر مولانا سید حسن امداد جعفری ہیں۔
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | سید حسن امداد جعفری |
قالب | مسدس |
وزن | فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن |
موضوع | حمد الٰہی |
زبان | اردو |
تعداد بند | 12 |
تعارف
"فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن" کے وزن پر لکھا گیا یہ حمدیہ مسدس اردو کی مذہبی شاعری میں ایک خوبصورت شاہکار ہے۔
مکمل کلام
چاند تاروں کی شانِ جمالی میں تُو | سبز پتوں میں پھولوں کی لالی میں تُو | |
خوشے خوشے میں تو، بالی بالی میں تُو | ٹہنی ٹہنی میں تُو، ڈالی ڈالی میں تُو | |
بوٹے بوٹے میں گل، گل میں بُو ، بُو میں تُو | ||
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو! | ||
سبر پوشانِ گلشن سرِ آبِ جُو | نرگس و نسترَن، یاسمن، ناز بُو | |
مشک بیزانِ دشتِ خُتن چار سُو | طائرانِ چمن خوش نوا، خوش گلُو | |
کہتے ہیں آبِ شبنم سے کرکے وضو | ||
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو! | ||
یوں تو ہر اِک نبی ؑ تجھ سے منسوب ہے | تیرابھیجا ہوا ہے ، بہت خوب ہے | |
ہاں مگر اُن میں اِک تیرا محبوب ہے | جس کی ہر اِک ادا تجھ کو مرغوب ہے | |
تیرا محبوب وہ، اس کا محبوب تُو | ||
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو! | ||
دخل ممکن نہیں تیرے اسرار میں | کس کو یارا بھلا تیری سرکار میں | |
کس کو تابِ سُخن تیرے دربار میں | حُسنِ یوسف تو بِک جائے بازار میں | |
اور نفسِ نبی ؐ کا خریدار تو! | ||
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو! | ||
دید کس کو میسر تری ذات کی | لاکھ موسیٰ ؑ نے تجھ سے مناجات کی | |
پھر بھی تو نے نہ اُن سے ملاقات کی | چھپ کے پردے میں کی ، جب کبھی بات کی | |
اور محمدؐ سے کی دُو بدُو گفتگو | ||
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو! | ||
گفتگو کب خدائی کے لہجے میں تھی | کب بھلا کبریائی کے لہجے میں تھی | |
کب تکبّر بڑائی کے لہجے میں تھی | یاں تو ہر بات بھائی کے لہجے میں تھی | |
آرہی تھی نبیؐ کو اُخوت کی بو | ||
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو! | ||
تھی محمدؐ کو حیرت یہ کیا راز ہے | یا تو کوئی نہ یار اور نہ دمساز ہے | |
پھر یہ ہے کون، یہ کس کی آواز ہے | یہ تو کچھ میرے بھائی کا انداز ہے | |
اے خدا سچ بتا یہ علی ؑ ہیں کہ تُو | ||
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو! | ||
کیا علی ؑ ہم سے پہلے یہاں آگئے؟ | توڑ کر سب حدودِ مکاں آگئے؟ | |
یا مرے ساتھ ہی مثلِ جاں آگئے؟ | چھوڑ آئے کہاں تھے، کہاں آگئے؟ | |
اللہ اللہ ! علیؑ میں ہے اتنا عُلو | ||
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو! | ||
جبرئیل ؑ اپنے پَر دیکھتے رہ گئے | شانِ سیرِ بشر دیکھتے رہ گئے | |
گردِ راہ سفر دیکھتے رہ گئے | تا بہ حدِّ نظر دیکھتے رہ گئے | |
اور محمد ؐروانہ ہوئے سوئے ہُو | ||
اللہ ہُواللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو! | ||
ہر فضیلت محمدؐ کے گھر بھیج دی | تھی جو شے خوب سے خوب تر بھیج دی | |
اُن کے بھائی کو تیغ دو سر بھیج دی | اور مَلَک سے پھر اس کی خبر بھیج دی | |
لافتیٰ کی صدا اب بھی ہے چار سُو | ||
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو! | ||
اللہ اللہ ! تری ذاتِ عزّ وجل | شرک پر تھے جو صدیوں سے اپنے اٹل | |
جن کا نعرہ اُحد میں تھا "اعلیٰ ہُبل" | دیکھ کر تیغِ حیدرؑ گرے منہ کے بل | |
اور کہنے لگے خوف سے حیلہ جُو | ||
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو! | ||
جن کو اپنے بزرگوں سے پستی ملی | علم وعرفان کی فاقہ مستی ملی | |
دین و ایمان کی تنگ دستی ملی | اپنے اجداد سے بت پرستی ملی | |
اُن کی محفل میں بھی آج ہے چار سُو | ||
اللہ ہُو اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو![1] |
حوالہ جات
- ↑ نقل از: زیدی، بستہ: ص7
مآخذ
- زیدی، پروفیسر سید سبط جعفر، بستہ، کراچی، محفوظ بک ایجنسی، طبع سوم، 1432ھ، 2011ء