تجھ کو دیارِ غیر کی آب و ہوا پسند

نظرثانی بتاریخ 14:27، 1 جون 2023ء از E Amini (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («''' تجھ کو دیارِ غیر کی آب و ہوا پسند''' حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا لکھا ہوا سلام ہے۔ ==تعارف== سلام کے ان اشعار میں سید محسن نقوی نے ایک خدا پسند اور خود پسند انسان کی پسند نا پسند کا تقابل پیش کیا ہے یعنی جو خدا پسند ہوگا اسے کربلا، خاکِ شفا،...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)

تجھ کو دیارِ غیر کی آب و ہوا پسند حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا لکھا ہوا سلام ہے۔

تعارف

سلام کے ان اشعار میں سید محسن نقوی نے ایک خدا پسند اور خود پسند انسان کی پسند نا پسند کا تقابل پیش کیا ہے یعنی جو خدا پسند ہوگا اسے کربلا، خاکِ شفا، راہِ نجف کی خوشبو، محبت علی ؑ کی شراب، سید الشہدا کا نقش قدم اور غم حسین ؑ میں رونا پسند آئے گا۔ اس کلام میں "انا پسند" اور "انتہا پسند" جیسی اصطلاحوں کا بہت خوبصورت استعمال دیکھنے کو ملتا ہے۔

مکمل کلام

تجھ کو دیارِ غیر کی آب و ہوا پسندمیں کیا کروں کہ مجھ کو ہے کرب و بلا پسند
میری سرشت تجھ سے جدا ہے بہر زماںیعنی تو خود پسند ہے، میں ہوں خدا پسند
"ضربت" پہ خلد، "نیند" پہ مرضی نثار کیخالق کو مرتضیٰ کی ہے اِک اِک ادا پسند
ہر دم وہ دم ہے پھر دم عیسیٰ ؑ کی آبرواِک بار آگئی جسے خاکِ شفا پسند
شبیر ؑ کی "نہیں" پہ دو عالم کی "ہاں" نثارایسا بھی کون ہوگا جہاں میں اَنا پسند
خوشبو رہِ نجف کی ہمیں یوں عزیز ہےجیسے مسافروں کو وطن کی ہوا پسند
خیبر شکن سے پوچھ قناعت کا بانکپنورنہ کسے ہے نانِ جویں سی غذا پسند
حُبِ علی ؑ کی مے کو جہاں سے چھپا کے رکھیہ جنس وہ ہے جس کو کریں انبیاء پسند
اس کم سنی میں یوں صفِ اعداء سے انتقاماصغر ؑ تو ابتدا میں ہوا "انتہا پسند"
خواہش ہے ، چاند کی بھی پرستش کروں کبھیاتنا ہے، اے حسین ؑ تِرا نقشِ پا پسند
دنیا مِری ہنسی نہ اڑائے تو کیا کرے؟مجھ کو خوشی میں بھی ہے یہ رونا بڑا پسند
ثابت ہوئی یہ بات دیارِ دمشق میںزینب ؑ خدا کے دیں کو ہے تیری رِدا پسند
سایہ فگن ہے سر پہ مِرے پرچمِ حسین ؑمجھ کو نہیں ہے سایۂ "بالِ ہُما" پسند[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، موجِ ادراک: ص 149

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، ۲۰۰۷م.