مجرئی طبع کند ہے لطفِ بیاں گیا: میر خلیق کا لکھا ہوا سلام ہے۔
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | میر مستحسن خلیؔق |
قالب | سلام |
وزن | مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن |
موضوع | غمِ اسیران |
زبان | اردو |
تعداد بند | 23 بند |
تعارف
اس سلام میں زیادہ تر واقعہ کربلا کے بعد اہل حرم کو درپیش مصائب کا ذکر پایا جاتا ہے۔
مکمل کلام
مجرئی طبع کند ہے لطفِ بیاں گیا | دنداں گئے کہ جوہرِ تیغِ زباں گیا | |
سینوں میں قدسیوں کے جگر کانپنے لگے | جب نالۂ حسین ؑ سوئے آسماں گیا | |
جب تک گڑی نہ لاشِ سلیمانِ کربلا | طائر نہ کوئی اڑ کے سوئے آشیاں گیا | |
پھیلا کے ہاتھ شیرِ الٰہی لپٹ گئے | فردوس میں حسین ؑ کہ جب میہماں گیا | |
رو کر یہ بعدِ رخصتِ حر کہتے تھے حسینؑ | گھر سے سخی کے تشنہ دہن میہماں گیا | |
فضلِ خدا جو ہو تو نہیں کچھ بہشت دور | دیکھو نصیبِ حر کہ کہاں سے کہاں گیا | |
کہتی تھی ماں دلہن بھی نہ اکبرؑ کی دیکھی ہائے | ناشاد و نامراد مرا نوجواں گیا | |
عابد ؑ کے راہِ شام میں شانے جو تھے فگار | کوسوں سنبھالتا ہوا طوقِ گراں گیا | |
بخشی تھی جس کے جد نے قطار اشتروں کی آہ | رسّی وہ کھینچتا صفتِ سارباں گیا | |
لے کر قدِ خمیدہ کو اپنے کہاں پھریں | گوشہ ہی پھر ہے خوب جو زورِ کماں گیا | |
خالی پڑی ہیں خلق میں کیا کیا عمارتیں | ہاں کس مکیں کے ساتھ بتاؤں مکاں گیا | |
زینب ؑ اسیرِ غم رہیں دنیا میں تا بہ مرگ | نا زخمِ دل گئے نہ رسن کا نشاں گیا | |
سجاد ؑ کہتے تھے پدرِ فاقہ کش کے ساتھ | لطفِ حیات اور مزۂ آب و ناں گیا | |
جھک جھک گئیں بہشت میں طوبیٰ کی ڈالیاں | جس وقت رن میں فوجِ خدا کا نشاں گیا | |
اترا جو سر تو حلقِ شہِ دیں نے دی صدا | شکرِ خدا کہ دوش سے بارِ گراں گیا | |
تکیہ تھا جس کا دوشِ پیمبرؐ ہزار حیف | وہ سر بدن سے کٹ کے بہ نوکِ سناں گیا | |
سجاد ؑ کہتے تھے مِرے ساتھی بچھڑ گئے | حیراں ہوں کس سے پوچھوں کدھر کارواں گیا | |
سجاد ؑ کہتے تھے کہ پہنچنا محال ہے | واحسرتا کہ دور بہت کارواں گیا | |
بے ساختہ یزید کے آنسو نکل پڑے | آہوں کا یہ حرم کی محل میں دھواں گیا | |
ماتم رہا مزارِ محمدؐ پہ تین دن | سادات کا لٹا ہوا جب کارواں گیا | |
بانو سے پوچھتی تھی سکینہ ؑ جو شام میں | اماں تمہاری گود سے اصغر ؑ کہاں گیا | |
کہتی تھی وہ کہاں کا پتا دوں سکینہ ؑ جاں | وہ بھی وہیں گئے علی اکبر ؑ جہاں گیا | |
گزری بہارِ عمر، خلیؔق اب کہیں گے سب | باغِ جہاں سے بلبلِ ہندوستاں گیا[1] |
حوالہ جات
- ↑ کشمیری، مراثئ میر خلیؔق: ص21
مآخذ
- کشمیری، اکبر حیدری ( پروفیسر)، مراثئ میر خلیؔق، کراچی، مرثیہ فاؤنڈیشن، 1418ھ/ 1997ء