میری جاں بہ لب بہنا میری دلربا بہنا

نظرثانی بتاریخ 21:18، 12 دسمبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = میر مستحسن خلیؔق | قالب = نوحہ | وزن = فاعِلن مفاعیلن فاعِلن مفاعیلن | موضوع = گریہ امام سجاد ؑ | مناسبت = شہادت جناب سکینہ ؑ | زبان = اردو | تعداد بند = 15 بند | منبع = }} '''میری جاں بہ...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)


میری جاں بہ لب بہنا میری دلربا بہنا: میر خلیق کا لکھا ہوا نوحہ ہے۔

میری جاں بہ لب بہنا میری دلربا بہنا
معلومات
شاعر کا ناممیر مستحسن خلیؔق
قالبنوحہ
وزنفاعِلن مفاعیلن فاعِلن مفاعیلن
موضوعگریہ امام سجاد ؑ
مناسبتشہادت جناب سکینہ ؑ
زباناردو
تعداد بند15 بند

تعارف

اس نوحے میں جناب سکینہ ؑ کی لاش پر امام زین العابدین ؑ کے بین کو اردو شاعری کی زباں دی گئی ہے۔

مکمل کلام

میری جاں بہ لب بہنا ، میری دلربا بہنالو تمہیں مبارک ہو باپ تو ملا بہنا
میں نے باپ کا حلقوم تیغ سے کٹا دیکھادیکھتے ہی تو مر گئی سنہ ہو بھرا بہنا
کچھ قصور خدمت میں میں نہیں کیا بی بیباباجان سے میرا کیجو مت گلا بہنا
بے نصیب مجھ سا بھی کون ہوگا دنیا میںباپ اس طرف چھوٹا، یوں ہوئی جدا بہنا
ماں کی چھوڑ کر گودی باپ کی لگی چھاتیاماں جاں کی خدمت کا کیا عوض یہ تھا بہنا
کچھ اگر محبت ہے تم کو بھائی کی اپنےباپ سے سفارش کر لو مجھے بلا بہنا
رفتہ رفتہ جا پہنچے میرے ساتھی منزل پرپیچھے قافلے کے ایک میں ہی رہ گیا بہنا
خوان کھانے کا یاں کون قیدیوں کو بھیجے تھاباپ کا جو سر دیکھا تب یہ سِر کھلا بہنا
تم کو خوابِ راحت سے میں جگا نہیں سکتاسوئیں تم تو بابا کے منہ سے منہ لگا بہنا
حال قیدیوں کا گر تم سے پوچھیں بابا جاںبھول جانا مت مجھ کو اس گھڑی بھلا بہنا
ماتھا رکھ کے ماتھے پر باپ کے ہوئی بے دمسرنوشت میں تیری تھا یہی لکھا بہنا
مرتبہ ہو یہ جس کا نام لے وہ الفت کاآفریں تجھے بہنا تجھ کو مرحبا بہنا
گروطن میں پوچھے گی تجھ کو فاطمہ صغراچھاتی پھٹتی ہے میری میں کہوں گا کیا بہنا
تجھ کو میں کفن کیونکر دوں عجب خرابی ہےایک ایک کے سر سے چھن گئی ردا بہنا
دفن کرکے پھر بولا اے خلیؔق وہ عابد ؑلو تمہاری تربت کا حافظ اب خدا بہنا[1]

حوالہ جات

  1. کشمیری، مراثئ میر خلیؔق: ص95

مآخذ

  • کشمیری، اکبر حیدری ( پروفیسر)، میراثئ میر خلیؔق، کراچی، مرثیہ فاؤنڈیشن، 1418ھ/ 1997ء