ابتدائے سخن حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا حمدیہ کلام ہے۔
معلومات | |
---|---|
شاعر کا نام | محسن نقوی |
قالب | حمد |
وزن | مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن |
موضوع | فیض الٰہی |
زبان | اردو |
تعداد بند | 22 بند |
تعارف
اس حمد کا آغاز ہی اللہ تعالیٰ کی لامحدود قدرت اور تخلیق کی انفرادیت سے ہوا ہے جو "ضمیرِ کُن" سے ہر چیز کو گوہرِ وجود سے آراستہ کرتا ہے۔ پھر رب جلیل کی عطاؤں کا خوبصورت انداز سے تذکرہ کرتے ہوئے پنجتن پاک ؑکے بابرکت وجود اور ان کے صدقے حاصل ہونے والی نعمتوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ ان کے نام کے طفیل مزید نعمتیں ملنے کی امید ظاہر کی گئی ہے۔
مکمل کلام
میں اُس کے نام سے کرتا ہوں ابتدائے سخن! | "ضمیرِ کُن" سے اُگاتا ہے جو زمین و زمن | |
شعاعِ لوحِ خفی سے تراشتا ہے وجود! | غبارِ قافِ قلم سے اُجالتا ہے بدن | |
اُسی کے دستِ کرم سے جہاں میں بٹتا ہے | تمام صبح کا سونا، تمام رات کا دَھن | |
اُسی کے واسطے محشر ، اسیرِ اَمرِ ظہور! | اُسی کے حکم سے دنیا نمو کی لے میں مگن | |
وہی تو ہے جو ہواؤں کو دے کے اذنِ خرام | سمندروں کی جبیں پر ابھارتا ہے شکن | |
اُسی کے لطف و کرم سے کشیدِ ابرِ بہار | سجائے بطنِ صدف میں لبِ گہر پہ کرن | |
اُسی کے حسنِ سخا سے حدِ نگاہ میں ہے | جہاں میں بہرِ غزالاں فضائے دشت و دَمن | |
زمیں پہ نصب کیے اُس نے پتھروں کے خیام | یہ کوہسار ، سمیٹیں جو آسماں کی پھبن | |
اُسی کے معجزۂ کُن کے نقش ہائے جمیل! | یہ مرغزار ، یہ جھرنوں میں غسل کرتے چمن | |
وہی محیطِ قضا و قدر، ورائے خیال | وہی ہے چارہ گرِ اضطرابِ رنج و محن | |
اُسی کی بخششِ پیہم کے گیت گاتے ہیں | وہ طائرانِ فلک بخت ہوں کہ زاغ و زَغن | |
اُسی کا ذکر کریں اہلِ دل کہ دنیا میں | بڑھے لہو کی روانی، مٹے دلوں کی تھکن | |
وہ کردگارِ دوعالم، خبیرِ سرِّ خفی! | رفیقِ دل زدگاں ، کبریائے رمزِ کہن | |
جو بندگی کو ہدایت کا نور دیتا ہے | جو آگہی کو سکھاتا ہے مصطفیٰ ؐ کا چلن | |
وہ ربِ نطقِ دل وجاں وہ کبریا میرا | اُسی کے اذن سے حاصل مجھے متاعِ سخن | |
جھکا میں سامنے اُس کے تو سرخرو بھی ہوا | نہ شرمسار ہے سجدہ ، نہ ہے جبیں پہ شکن | |
عجب سخی ہے کہ اُس سے سوال کرکے سدا | نہ ہاتھ شل ہوئے میرے، نہ زباں میں تھکن | |
شفاعتِ شہِ بطحا ؐ نصیب ہو تو مجھے | نہ مال و زر کی ہوس ہے ، نہ حرصِ لعلِ یمن | |
اُسی کے حسن پہ سوچا تو اپنی آنکھوں میں | تمام رنگ بکھرتے گئے چمن بہ چمن! | |
نویدِ خُلد وہ بخشے کبھی بفیضِ رسولؐ | کبھی بنامِ علی ؑ دے وہ مجھ کو رزقِ سخن | |
یہ سانس صدقۂ زہرا ؑ میں دی اُسی نے مجھے | درِ بتولؑ کہ ہے لوحِ معرفت کا متن! | |
وہ دے گا دل کو ابھی اور نعمتیں محسنؔ | بنامِ عکسِ جمالِ رُخِ حسین ؑ و حسن ؑ[1] |
حوالہ جات
- ↑ محسن نقوی، فراتِ فکر: ص 5
مآخذ
- محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.