ابتدائے سخن

نظرثانی بتاریخ 16:54، 11 دسمبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = | تصویر = | توضیح تصویر = | شاعر کا نام = محسن نقوی | قالب = حمد | وزن = مفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن | موضوع = فیض الٰہی | مناسبت = | زبان = اردو | تعداد بند = 22 بند | منبع = }} '''ابتدائے سخن''' حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقو...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)


ابتدائے سخن حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کا حمدیہ کلام ہے۔

ابتدائے سخن
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبحمد
وزنمفاعِلن فَعِلاتن مفاعِلن فَعِلن
موضوعفیض الٰہی
زباناردو
تعداد بند22 بند

تعارف

اس حمد کا آغاز ہی اللہ تعالیٰ کی لامحدود قدرت اور تخلیق کی انفرادیت سے ہوا ہے جو "ضمیرِ کُن" سے ہر چیز کو گوہرِ وجود سے آراستہ کرتا ہے۔ پھر رب جلیل کی عطاؤں کا خوبصورت انداز سے تذکرہ کرتے ہوئے پنجتن پاک ؑکے بابرکت وجود اور ان کے صدقے حاصل ہونے والی نعمتوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ ان کے نام کے طفیل مزید نعمتیں ملنے کی امید ظاہر کی گئی ہے۔

مکمل کلام

میں اُس کے نام سے کرتا ہوں ابتدائے سخن!"ضمیرِ کُن" سے اُگاتا ہے جو زمین و زمن
شعاعِ لوحِ خفی سے تراشتا ہے وجود!غبارِ قافِ قلم سے اُجالتا ہے بدن
اُسی کے دستِ کرم سے جہاں میں بٹتا ہےتمام صبح کا سونا، تمام رات کا دَھن
اُسی کے واسطے محشر ، اسیرِ اَمرِ ظہور!اُسی کے حکم سے دنیا نمو کی لے میں مگن
وہی تو ہے جو ہواؤں کو دے کے اذنِ خرامسمندروں کی جبیں پر ابھارتا ہے شکن
اُسی کے لطف و کرم سے کشیدِ ابرِ بہارسجائے بطنِ صدف میں لبِ گہر پہ کرن
اُسی کے حسنِ سخا سے حدِ نگاہ میں ہےجہاں میں بہرِ غزالاں فضائے دشت و دَمن
زمیں پہ نصب کیے اُس نے پتھروں کے خیامیہ کوہسار ، سمیٹیں جو آسماں کی پھبن
اُسی کے معجزۂ کُن کے نقش ہائے جمیل!یہ مرغزار ، یہ جھرنوں میں غسل کرتے چمن
وہی محیطِ قضا و قدر، ورائے خیالوہی ہے چارہ گرِ اضطرابِ رنج و محن
اُسی کی بخششِ پیہم کے گیت گاتے ہیںوہ طائرانِ فلک بخت ہوں کہ زاغ و زَغن
اُسی کا ذکر کریں اہلِ دل کہ دنیا میںبڑھے لہو کی روانی، مٹے دلوں کی تھکن
وہ کردگارِ دوعالم، خبیرِ سرِّ خفی!رفیقِ دل زدگاں ، کبریائے رمزِ کہن
جو بندگی کو ہدایت کا نور دیتا ہےجو آگہی کو سکھاتا ہے مصطفیٰ ؐ کا چلن
وہ ربِ نطقِ دل وجاں وہ کبریا میرااُسی کے اذن سے حاصل مجھے متاعِ سخن
جھکا میں سامنے اُس کے تو سرخرو بھی ہوانہ شرمسار ہے سجدہ ، نہ ہے جبیں پہ شکن
عجب سخی ہے کہ اُس سے سوال کرکے سدانہ ہاتھ شل ہوئے میرے، نہ زباں میں تھکن
شفاعتِ شہِ بطحا ؐ نصیب ہو تو مجھےنہ مال و زر کی ہوس ہے ، نہ حرصِ لعلِ یمن
اُسی کے حسن پہ سوچا تو اپنی آنکھوں میںتمام رنگ بکھرتے گئے چمن بہ چمن!
نویدِ خُلد وہ بخشے کبھی بفیضِ رسولؐکبھی بنامِ علی ؑ دے وہ مجھ کو رزقِ سخن
یہ سانس صدقۂ زہرا ؑ میں دی اُسی نے مجھےدرِ بتولؑ کہ ہے لوحِ معرفت کا متن!
وہ دے گا دل کو ابھی اور نعمتیں محسنؔبنامِ عکسِ جمالِ رُخِ حسین ؑ و حسن ؑ[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، فراتِ فکر: ص 5

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.