اے رب جہاں

نظرثانی بتاریخ 16:27، 11 دسمبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←‏مآخذ)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)


اے رب جہاں: حماد اہل بیت ؑ سید محسن نقوی کی مشہور منظوم دعا ہے۔

اے رب جہاں
معلومات
شاعر کا ناممحسن نقوی
قالبغزل
وزنمفعول مفاعیل مفاعیل فَعُولن
موضوعدعا
زباناردو
تعداد بند20

تعارف

اس منظوم دعا کے مطلع میں غمِ حسین ؑ کی دولت سے مالا مال ہونے کی دعا کی گئی ہے، اسی طرح خاص طور پر بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور ماؤں بہنوں کے لیے دعا کی گئی ہے کہ رب دوجہاں انہیں کربلا کی عظیم شخصیات کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مکمل کلام

اے ربِ جہاں پنجتنِ پاکؑ کے خالقاس قوم کا دامن غمِ شبیر ؑ سے بھر دے
بچوں کو عطا کر علی اصغرؑ کا تبسم!بوڑھوں کو حبیب ابنِ مظاہر کی نظر دے
کمسن کو ملے ولولۂِ عون و محمّدہر ایک جواں کو علی اکبر ؑ کا جگر دے
ماؤں کو سکھا ثانیِ زہرا ؑ کا سلیقہبہنوں کو سکینہؑ کی دعاؤں کا اثر دے
یا رب تجھے بیماری عابد ؑ کی قسم ہےبیمار کی راتوں کو شفایاب سحر دے
مفلس پہ زر و لال جواہر کی ہو بارشمقروض کا ہر قرض ادا غیب سے کر دے
پابندِ رسن زینب ؑ و کلثوم ؑ کا صدقہبے جرم اسیروں کو رہائی کی خبر دے
جو مائیں بھی روتی ہیں بیادِ علی اصغران ماؤں کی آغوش کو اولاد سے بھر دے
جو حق کے طرفدار ہوں وہ ہاتھ عطا کرجو مجلسِ شبیرؑ کی خاطر ہو وہ گھر دے
قسمت کو فقط خاکِ شفا بخش دے مولامیں یہ نہیں کہتا کہ مجھے لعل و گہر دے
آنکھوں کو دکھا روضۂ مظلوم کا منظرقدموں کو نجف تک بھی کبھی اذنِ سفر دے
جو چادرِ زینب ؑ کی عزادار ہیں مولامحفوظ رہیں ایسی خواتین کے پردے
غم کوئی نہ دے ہم کو سوائے غمِ شبیر ؑشبیر ؑ کا غم بانٹ رہا ہے تو ادھر دے
کب تک رہوں دنیا میں یتیموں کی طرح میںوارث مرا پردے میں ہے ظاہر اُسے کردے
منظور ہے خوابوں میں بھی آقا کی زیارتپرواز کی خواہش ہے نہ جبریل کے "پر" دے
جس در کے سوالی ہیں فرشتے بھی بشر بھی آوارۂ منزل ہوں مجھے بھی وہی در دے
جو دین کے کام آئے وہ اولاد عطا کرجو کٹ کے بھی اونچا ہی نظر آئے وہ سر دے
خیرات درِ شاہ نجف چاہیے مجھ کوسلمان و ابوذر کی طرح کوئی ہنر دے
صحراؤں میں عابد ؑ کی مسافت کے صلے میںبھٹکے ہوئے رَہرو کو ثمردار شجر دے
سر پر ہو سدا پرچمِ عباس ؑ کا سایہمحسن کی دعا ختم ہے اب اس کو اثر دے[1]

حوالہ جات

  1. محسن نقوی، فراتِ فِکر: ص181۔

مآخذ

  • محسن نقوی، میراثِ محسن، لاہور، ماورا پبلشرز، 2007ء.