میر خلیق(1766ء۔ 1844ء) اردو کے نامور مرثیہ نگار میر انیس کے والد گرامی بھی تھے اور استاد بھی۔ غزل اور مرثیہ گوئی میں مشہور تھے۔
معلومات | |
---|---|
پورا نام | میر مستحسن |
تخلص | خلیق |
اساتذہ | شیخ مصحفی |
تلامذہ | انیس، مونس، انس، رشک لکھنوی، رند لکھنوی، نواب حسام الدین حیدر نامی |
محل ولادت | فیض آباد (ہند) |
تاریخ ولادت | 1766ء |
محل زندگی | فیض آباد، لکھنؤ |
وفات | 1844ء |
مدفن | لکھنؤ |
مختصر سوانح حیات
نام میر مستحسن ، تخلص خلیق۔ اردو کے نامور مرثیہ نگار میر انیس کے والد گرامی بھی تھے اور استاد بھی۔ ان کے تین فرزند میر انیس، میر انس اور میر مونس مرثیہ گوئی کے افق پر چاند سورج بن کر طلوع ہوئے۔ میر خلیق کے جد اعلیٰ میر ضاحک دہلی سے فیض آباد آن بسے، لیکن خلیق لکھنؤ میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔ میر خلیق اپنے والد گرامی میر حسن اور اس دور کے معروف شاعر مصحفی کے شاگرد تھے۔[1] یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے میر حسن خلیق کو میر تقی میر کے پاس لے گئے لیکن انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ہی اولاد کی تربیت پر توجہ نہیں دے پارہے ہیں تو کسی اور کی اصلاح و تربیت کا دماغ کہاں سے لائیں۔ میر صاحب سے یہ جواب سنننے کے بعد ہی ان کو مصحفی کے سپرد کیا۔[2] میر خلیق نے سولہ برس کی عمر سے شاعری شروع کی تھی۔ لکھنؤ کے مشہور مرثیہ نگاروں میں خلیق ہی ایسے شاعر ہیں جن کے مرثیے شائع نہیں ہوئے، جبکہ وہ غزل کی دنیا میں بھی استاد تھے اور ان کی غزلیات کے کئی دیوان شائع ہوئے۔ شبلی کے مطابق میر نواب حسن نامی ایک بزرگ نے میر خلیق، مونس اور انیس کے متعدد مرثیے جمع کئے تھے، لیکن اس مجموعے میں خلیق کے جو مرثیے شامل ہیں آج انیس کے نام سے مشہور ہیں۔ میر خلیق اپنے عہد میں غزل کے مسلم الثبوت استاد مانے جاتے تھے۔ انیؔس، انسؔ، مونسؔ کے علاوہ رشؔک لکھنوی، رندؔ لکھنوی، نواب حسام الدین حیدر نامی اور سنولال نالاںؔ ان کے مشہور شاگردوں میں تھے۔ غزل کے استاد ہونے کے باوجود ان کی شہرت کا دار ومدار مرثیہ گوئی پر ہے۔[3]
خلیق کے مرثیوں میں صاف زبان اور صحت کے ساتھ محاروں کا استعمال ان کی شاعری کے نمایاں عناصر ہیں۔ ان کے مرثیوں میں رخصت کے مناظر بہت ملتے ہیں اور اکثر مرثیوں کی ابتداء براہِ راست رخصت کے مناظر سے ہوتی ہے۔ ایک طرح سے ان کی پہچان رخصت اور بین کی شاعری ہے۔[4] ان کے ایک مرثیے کی ابتدا اس انداز سے ہوتی ہے:
تیاری ہوئی جنگ کی جب لشکر کیں میں | اور نکلے ہر اِک صف سے کماں دار کمیں میں | |
کمریں لگیں بندھنے رفقائے شہِ دیں میں | شبیر گئے خیمۂ بانوئے حزیں میں | |
فرمایا تحمل نہیں اب فوج ستم کو | ||
اللہ کو سونپا تمہیں، رخصت کرو ہم کو[5] |
ان کے مرثیوں میں بندش الفاظ، حسین ترکیبیں، فصاحت و بلاغت کے جوہر، زبان کی سادگی وپاکیزگی ، روزمرہ اور محاورے کی درستی اور انسانی احساسات و جذبات کی اعلیٰ خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے خلیؔق کو کو اپنے معاصرین پر تقدم حاصل ہے۔[6]
حوالہ جات
مآخذ
- حیدرآبادی، محسن، مرقع شعرائے اردو، کلچرل آرٹس فاؤنڈیشن، حیدر آباد ہند، طبع اول، 2007ء۔
- کاظمی، سید عاشور، اردو مرثیے کا سفر اور بیسویں صدی کے اردو مرثیہ نگار، دہلی نو، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، طبع اول، 2006ء۔
- کشمیری، اکبر حیدری (پروفیسر)، مراثی میر خلیؔق،کراچی، مرثیہ فاؤنڈیشن، 1418ھ/1997ء.