زباں پر مدح ہے باغِ علی کے نونہالوں کی

نظرثانی بتاریخ 22:42، 19 نومبر 2023ء از Nadim (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (حذف زمان‌دار، برچسب حق تکثیر، برچسب منبع، عدد انگلیسی)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)


زباں پر مدح ہے باغِ علی کے نونہالوں کی: جناب میر انیس کا لکھا ہوا سلام ہے۔

زباں پر مدح ہے باغِ علی کے نونہالوں کی
معلومات
شاعر کا ناممیر انیس
قالبسلام
وزنمفاعیل مفاعیل مفاعیل مفاعیل
زباناردو
تعداد بند28 بند

تعارف

اس سلام میں حضرت علی اکبرؑ، جناب عون و محمد اور شاہِ کربلا کے جانثار اصحاب کی مدح سرائی کے ساتھ مختلف اوقات جیسے ورودِ کربلا، سفر شام و کوفہ اور زندانِ شام وغیرہ کے مصائب کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔

مکمل کلام

زباں پر مدح ہے باغِ علی کے نونہالوں کیگلستاں سے ہیں رنگیں مجلسیں نازک خیالوں کی
وہ پہلو اور پیکانِ سہ پہلو، کیا قیامت ہےوہ سینہ شہ کا اور نوکیں ستمگاروں کے بھالوں کی
کمر کس کر علی اکبر نے جب سر پر رکھا شملہبلائیں لے لیں اٹھ کر ماں نے گھونگر والے بالوں کی
جوانانِ حسینی نے صفیں توڑیں، پرے اُلٹےنہ بھولے گی لڑائی تا قیامت، مرنے والوں کی
قلم بھی رہ گیا ہر بار نقطہ دے کے ناخن پرنہ سوجھی جب کوئی تشبیہ روئے شہ کے خالوں کی
علی اکبر کے ابرو دیکھتا تھا جو، وہ کہتا تھایہ تصویریں ہیں دونوں چاند کے پیچھے ہلالوں کی
"بحمد اللہ!" عابد کہتے تھے جب پوچھتیں زینب"پھپھی قربان اب کیا شکل ہے تلووں کے چھالوں کی"
معاذاللہ! رعبِ دلبرانِ حضرتِ زینبعلی کا رعب، چتون شیر کی، آنکھیں غزالوں کی
جھکے تھے سر، عرق چہروں پہ تھا اور بند تھیں آنکھیںپڑی تھیں چادریں سیدانیوں کے منہ پہ بالوں کی
جھکا تھا پشت پر ایک اک کی، سر ایک ایک بی بی کایہ نقشہ قیدیوں کا تھا، یہ صورت پردے والوں کی
اٹھائے یہ سکینہ نے جفائے شمر کے صدمےکہ رنگت ہو گئی تھی سوسنی، اُن گُل سے گالوں کی
ہوا اک حشر، جب زینب نے پوچھا آ کے مقتل میںکہاں قبریں بنی ہیں، میرے دونوں مرنے والوں کی
عزا دار، اِس طرف سب تعزیے شہ کے اٹھاتے ہیںاُدھر نقلیں لکھی جاتی ہیں جنت کے قبالوں کی
جو پوچھا حالِ انصار آ کے زعفر نے شہِ دیں سے[1] کہا شہ نے حقیقت کچھ نہ پوچھو مرنے والوں کی
جری [2]ایسے نہ ہوں گے باغِ عالم میں کبھی پیدازباں سے کیا بیاں تعریف ہو یوسف جمالوں کی
غمِ اصغر میں، بانو کہتی تھیں، مرتی ہوں اے بیٹاسُنگھاؤ اٹھ کے خوشبو اپنے گھونگھر والے بالوں کی
رفیقانِ حسین ابنِ علی کیا کیا بہادر تھےسناں کھائی ہر اک نے چاند سے سینے پہ بھالوں کی [3]
جب آتا ذکر بیٹوں کا، تو زینب سب سے کہتی تھیںخدا بخشے ابھی کیا عمر تھی اُن مرنے والوں کی
[4] جگہ جب مول لی شہ نے، تو ہاتف نے کہا رو کریہیں بستی بسے گی، فاطمہ کے نونہالوں کی
پڑے تھے خاک پر اہلِ حرم، تکیہ نہ بستر تھاہوئی تھی شکل زنداں میں یہ اُن یوسف جمالوں کی
کہا زینب سے بیٹوں نے اجازت آپ تو دیجےسِنانیں شوق سے ہم کھائیں گے سینوں پہ بھالوں کی
بوقتِ جوشِ گریہ فاطمہ کہتی تھیں محبّوں سےجگہ آنکھوں میں اور دل میں ہے اِن سب رونے والوں کی
جب آئے غیض میں عباس فوجِ شام کے آگےصفیں ہٹ ہٹ گئیں میدان سے جنگی رسالوں کی
گرے جب شاہ گھوڑے سے، ندا ہاتف کی یہ آئیجگہ جھاڑی ہوئی ہے، فاطمہ زہرا کے بالوں کی
کبھی مقتل، کبھی کوفہ، کبھی صحرا، کبھی زنداںحقیقت کچھ نہ پوچھو فاطمہ کبریٰ کے چالوں کی
جب آئی لوٹنے کو فوج خیمے میں ہوا محشرصدا پہنچی فلک پر فاطمہ زہرا کے نالوں کی
چمکتی برق کی صورت تھی ہر شمشیر میداں میںبرستے سر تھے ہر جا پر گھٹا چھائی تھی ڈھالوں کی
انیس اب تو ہلال و بدر کو یکساں سمجھتے ہیں[5]رہی ہے منصفوں میں قدر یہ صاحب کمالوں کی[6]

حوالہ جات

  1. مجموعہ مرثیہ وسلام ہائے میر انیس: مطبع دبدبۂ احمدی لکھنؤ ، محرم 1319ھ میں اس مصرعے کو "جو پوچھا حال انصاروں کا، آکر زعفرِ جن نے" لکھا ہوا ہے۔
  2. سلام ہائے انیس: نسخۂ مملوکہ مہاراجکمار صاحب محمود آباد(قلمی) میں "جری" کی جگہ "حَسیں" لکھا گیا ہے۔
  3. یہ بند سلام ہائے انیس: نسخۂ مملوکہ مہاراجکمار صاحب محمود آباد(قلمی) میں نہیں ہے۔
  4. یہاں سے بالترتیب چھ بند مجموعہ مرثیہ وسلام ہائے میر انیس: مطبع دبدبۂ احمدی لکھنؤ ، محرم 1319ھ میں شامل نہیں۔
  5. مجموعہ مرثیہ وسلام ہائے میر انیس: مطبع دبدبۂ احمدی لکھنؤ ، محرم 1319ھ کے مطابق یہ مصرع کچھ یوں ہے: "انیؔس اب تو ہلال و بدر کا ہے مرتبہ یکساں"
  6. زیدی، انیؔس کے سلام: ص133

مآخذ

  • زیدی، علی جواد، انیؔس کے سلام، نئی دہلی، ترقی اردو بیورو، طبع اول، 1981ء.