کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے

نظرثانی بتاریخ 09:35، 7 نومبر 2023ء از Noori (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («{{جعبه اطلاعات شعر | عنوان = کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے | شاعر کا نام = افتخار عارف | قالب = غزل | وزن = فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن | موضوع = سلام | مناسبت = محرم الحرام | زبان = اردو | تعداد شعر= 7 | منبع = }} ''' کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجد...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
(فرق) → پرانا نسخہ | تازہ ترین نسخہ (فرق) | تازہ نسخہ ← (فرق)


کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے :یہ افتخار عارف کا لکھا ہوا سلام ہے۔

کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے
معلومات
شاعر کا نامافتخار عارف
قالبغزل
وزنفاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
موضوعسلام
مناسبتمحرم الحرام
زباناردو

تعارف

یہ منفرد ردیف سجدے میں ہےپر مشتمل کلام افتخار عارف کا ہے؛جس میں زمینِ کربلا پر سجدۂ امام حسین ٔ کو زندگی اور اہل باطل کو موت سے تعبیر کیا گیا ہےاور سجدۂ امام حسین ٔ کو سجدۂ علی ٔ کا تسلسل و تتمہ قرار دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ سجدے کو طول دینا پیغمبرِؐ اسلام کی سنت ہے سو کل رسولؐ اللہ سجدے کو طول دے رہے تھے تو آج ولی اللہ سجدے کو زندگی بخش رہے ہیں۔۔۔۔

مکمل کلام

کربلا کی خاک پر کیا آدمی سجدے میں ہے ​
موت رسوا ہو چکی ہے زندگی سجدے میں ہے
​"وہ جو اک سجدہ علی کا بچ رہا تھا وقت ِفجر"
فاطمہ کا لال اب شاید اسی سجدے میں ہے
​سنتِ پیغمبرِ خاتم ہے سجدے کا یہ طول
کل نبی سجدے میں تھے آج اک ولی سجدے میں ہے
​وہ جو عاشورہ کی شب گل ہوگیا تھا اک چراغ
اب قیامت تک اسی کی روشنی سجدے میں ہے
​حشر تک جس کی قسم کھاتے رہیں گے اہلِ حق
یک نفسِ مطمئن اس دائمی سجدے میں ہے
نوکِ نیزہ پر بھی ہونی ہے تلاوت بعدِ عصر ​
مصحفِ ناطق تہِ خنجر ابھی سجدے میں ہے
اس پہ حیرت کیا لرز اٹھی زمین ِ کربلا ​
راکب دوش پیمبر آخری سجدے میں ہے

حوالہ جات

افتخار عارف،شہرِ علم کے دروازے پر،ص32

مآخذ

  • افتخار عارف،شہرِ علم کے دروازے پر،کراچی،پاکستان،اکتوبر 2005ء۔